كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ سَمِعْتُ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيَّ يَقُولُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَ إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
باب : نبی کریم ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرنا
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عمر وبن مرہ نے خبر دی ‘ کہا میں نے مرۃ الہمدانی سے سنا ‘ بیان کیا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ سب سے اچھی بات کتاب اللہ اور سب سے اچھا طریقہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور سب سے بری نئی بات ( بدعت ) پیدا کرنا ہے ( دین میں ) اور بلا شبہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ آکر رہے گی اور تم پر وردگار سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتے ۔
تشریح :
آخرت عذاب قبر حشر نشر یہ سب کچھ ضرور ہو کر رہے گا ۔ دوسری مرفوع حدیث میں ہے جابر رضی اللہ عنہ کی کل بدعۃ ضلالۃ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد اور عرباض بن ساریہ کی حدیث میں ہے ایاکم ومحدثات الامورفان کل بدعۃ ضلالۃ اس کو ابن ماجہ اور حاکم اور ابن حبان نے صحیح کہا ۔ حافظ نے کہا بدعت شرعی وہ ہے جو دین میں نئی بات نکالی جائے جس کی اصل شرع سے نہ ہو ۔ ایسی ہر بدعت مذموم اور قبیح ہے لیکن لغت میں بدعت ہر نئی بات کو کہتے ہیں ۔ اس میں بعض بات اچھی ہوتی ہے اور بعض بری ۔ امام شافعی نے کہا ایک بدعت محمود ہے جو سنت کے موافق ہو ‘ دوسری مذموم جو سنت کے خلاف ہو اور امام بیہقی نے مناقب شافعی میں ان سے نکا لا ‘ انہوں نے کہا نئے کا م دو قسم کے ہیں ایک تو وہ جو کتاب وسنت اور آثار صحابہ اور اجماع کے خلاف ہیں ‘ وہ بدعت ضلالت ہیں ۔ دوسرے وہ جو ان کے خلاف نہیں ہیں وہ گو محدث ہوں مگر مذموم نہیں ہیں۔ میں کہتا ہوں بدعت کی تحقیق میں علماءکے مختلف اقوال ہیں اور انہوں نے اس باب میں جدا گانہ رسائل اور کتابیں تصنیف کئے ہیں اور بہتر رسالہ مولانا اسماعیل صاحب کا ہے ایضاح الحق ۔ ابن عبد السلام نے اس باب میں جدا گانہ رسائل اور کتابیں تصنیف کئے ہیں اور بہتر رسالہ مولانا اسماعیل صاحب کا ہے ایضاح الحق ۔ ابن عبد السلام نے کہا بدعت پانچ قسم ہے بعضی بدعت واجب ہے جیسے علم صرف اور نحو کا حاصل کرنا جس سے قرآن وحدیث کا مطلب سمجھ میں آئے ۔ بعضے مستحب ہیں جیسے تراویح میں جمع ہونا‘ مدرسے سے بنا نا ‘ سرائیں بنا نا ۔ بعضے حرام ہیں جو خلاف سنت ہیں جیسے قدریہ مرجیہ مشبہ کے بدعات بعضے مباح ہیں جیسے مصافحہ نماز فجر یا نماز عصر کے بعد اور کھانے پینے کی لذتیں وغیرہ بعضے مکروہ اور خلاف اولیٰ ۔ میں کہتا ہوںابن عبد السلام کی مراد بدعت سے بدعت لغوی ہے ۔ بیشک اس کی کئی قسمیں ہو سکتی ہیں ۔ لیکن بدعت شرعی جس کی کوئی اصل کتاب وسنت سے نہ ہو اور قرون ثلٰثہ کے بعد دین میں نکالی جائے وہ نری گمراہی ہے ایسی بدعت کوئی اچھی نہیں ہو سکتی اور صرف ونحو کا علم حاصل کرنا یا مدرسے سے سرائیں بنا نا یا نماز تراویح میں جمع ہونا بدعت شرعی نہیں ہے کیونکہ ان کی اصل کتاب وسنت سے پائی جاتی ہے اور ان میںکی بعضی باتیں صحابہ اور تابعین کے وقت میں شروع ہو گئی تھیں ۔ بدعت شرعی وہ ہے جو صحابہ اور تابعین اورتبع تابعین کے بعد دین میں نکالی جائے اور اس کی اصل کتاب اور سنت سے نہ ہو ۔ رہا مصافہ عصر اور فجر کی نماز کے بعد تو گو ابن عبد السلام نے اس کو مباح کہا مگر اکثر علمائل نے اس کو بدعت مذموم قرار دیا ہے ۔ اسی طرح عیدین کے بھی مصافحہ اور معانقہ سے منع کیا ہے ۔
آخرت عذاب قبر حشر نشر یہ سب کچھ ضرور ہو کر رہے گا ۔ دوسری مرفوع حدیث میں ہے جابر رضی اللہ عنہ کی کل بدعۃ ضلالۃ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد اور عرباض بن ساریہ کی حدیث میں ہے ایاکم ومحدثات الامورفان کل بدعۃ ضلالۃ اس کو ابن ماجہ اور حاکم اور ابن حبان نے صحیح کہا ۔ حافظ نے کہا بدعت شرعی وہ ہے جو دین میں نئی بات نکالی جائے جس کی اصل شرع سے نہ ہو ۔ ایسی ہر بدعت مذموم اور قبیح ہے لیکن لغت میں بدعت ہر نئی بات کو کہتے ہیں ۔ اس میں بعض بات اچھی ہوتی ہے اور بعض بری ۔ امام شافعی نے کہا ایک بدعت محمود ہے جو سنت کے موافق ہو ‘ دوسری مذموم جو سنت کے خلاف ہو اور امام بیہقی نے مناقب شافعی میں ان سے نکا لا ‘ انہوں نے کہا نئے کا م دو قسم کے ہیں ایک تو وہ جو کتاب وسنت اور آثار صحابہ اور اجماع کے خلاف ہیں ‘ وہ بدعت ضلالت ہیں ۔ دوسرے وہ جو ان کے خلاف نہیں ہیں وہ گو محدث ہوں مگر مذموم نہیں ہیں۔ میں کہتا ہوں بدعت کی تحقیق میں علماءکے مختلف اقوال ہیں اور انہوں نے اس باب میں جدا گانہ رسائل اور کتابیں تصنیف کئے ہیں اور بہتر رسالہ مولانا اسماعیل صاحب کا ہے ایضاح الحق ۔ ابن عبد السلام نے اس باب میں جدا گانہ رسائل اور کتابیں تصنیف کئے ہیں اور بہتر رسالہ مولانا اسماعیل صاحب کا ہے ایضاح الحق ۔ ابن عبد السلام نے کہا بدعت پانچ قسم ہے بعضی بدعت واجب ہے جیسے علم صرف اور نحو کا حاصل کرنا جس سے قرآن وحدیث کا مطلب سمجھ میں آئے ۔ بعضے مستحب ہیں جیسے تراویح میں جمع ہونا‘ مدرسے سے بنا نا ‘ سرائیں بنا نا ۔ بعضے حرام ہیں جو خلاف سنت ہیں جیسے قدریہ مرجیہ مشبہ کے بدعات بعضے مباح ہیں جیسے مصافحہ نماز فجر یا نماز عصر کے بعد اور کھانے پینے کی لذتیں وغیرہ بعضے مکروہ اور خلاف اولیٰ ۔ میں کہتا ہوںابن عبد السلام کی مراد بدعت سے بدعت لغوی ہے ۔ بیشک اس کی کئی قسمیں ہو سکتی ہیں ۔ لیکن بدعت شرعی جس کی کوئی اصل کتاب وسنت سے نہ ہو اور قرون ثلٰثہ کے بعد دین میں نکالی جائے وہ نری گمراہی ہے ایسی بدعت کوئی اچھی نہیں ہو سکتی اور صرف ونحو کا علم حاصل کرنا یا مدرسے سے سرائیں بنا نا یا نماز تراویح میں جمع ہونا بدعت شرعی نہیں ہے کیونکہ ان کی اصل کتاب وسنت سے پائی جاتی ہے اور ان میںکی بعضی باتیں صحابہ اور تابعین کے وقت میں شروع ہو گئی تھیں ۔ بدعت شرعی وہ ہے جو صحابہ اور تابعین اورتبع تابعین کے بعد دین میں نکالی جائے اور اس کی اصل کتاب اور سنت سے نہ ہو ۔ رہا مصافہ عصر اور فجر کی نماز کے بعد تو گو ابن عبد السلام نے اس کو مباح کہا مگر اکثر علمائل نے اس کو بدعت مذموم قرار دیا ہے ۔ اسی طرح عیدین کے بھی مصافحہ اور معانقہ سے منع کیا ہے ۔