‌صحيح البخاري - حدیث 7260

كِتَابُ أَخْبَارِ الآحَادِ بَابُ مَا جَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِ الوَاحِدِ الصَّدُوقِ فِي الأَذَانِ وَالصَّلاَةِ وَالصَّوْمِ وَالفَرَائِضِ وَالأَحْكَامِ صحيح و حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ قَامَ رَجُلٌ مِنْ الْأَعْرَابِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اقْضِ لِي بِكِتَابِ اللَّهِ فَقَامَ خَصْمُهُ فَقَالَ صَدَقَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اقْضِ لَهُ بِكِتَابِ اللَّهِ وَأْذَنْ لِي فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْ فَقَالَ إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا وَالْعَسِيفُ الْأَجِيرُ فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةٍ مِنْ الْغَنَمِ وَوَلِيدَةٍ ثُمَّ سَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى امْرَأَتِهِ الرَّجْمَ وَأَنَّمَا عَلَى ابْنِي جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ فَقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ أَمَّا الْوَلِيدَةُ وَالْغَنَمُ فَرُدُّوهَا وَأَمَّا ابْنُكَ فَعَلَيْهِ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ وَأَمَّا أَنْتَ يَا أُنَيْسُ لِرَجُلٍ مِنْ أَسْلَمَ فَاغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَإِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا فَغَدَا عَلَيْهَا أُنَيْسٌ فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَهَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7260

کتاب: خبر واحد کے بیان میں باب : ایک سچے شخص کی خبر پر اذان نماز روزے فرائض سارے احکام میں عمل ہونا ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ کہا مجھ کو عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے کہ دیہاتیوں میں سے ایک صاحب کھڑے ہوئے اور کہا کہ یا رسول ا للہ ! کتاب اللہ کے مطابق میرا فیصلہ فرمادیجئے۔ اسکے بعد ان کا مقابل فریق کھڑا ہوا اور کہا انہوں نے صحیح کہا یا رسول اللہ ! ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کردیجئے اور مجھے کہنے کی اجازت دیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہو۔ انہوں نے کہا کہ میرا لڑکا ان کے یہاں مزدوری کیا کرتا تھا ( عسیف بمعنی اجیر‘ مزدور ہے ) پھر اس نے ان کی عورت سے زنا کر لیا تو لوگوں نے مجھے بتا یا کہ میرے بیٹے پر رجم کی سزا ہو گی لیکن میں نے اس کی طرف سے سو بکریوں اور ایک باندی کا فدیہ دیا ( اور لڑکے کو چھڑا لیا ) پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے بتا یا کہ اس کی بیوی پر رجم کی سزا لاگو ہوگی اور میرے لڑکے کو سو کوڑے اور ایک سال کے لیے جلا وطنی کی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جا ن ہے ! میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔ باندی اور بکریاں تو اسے واپس کردو اور تمہارے لڑکے پر سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی کی سزا ہے اور اے انیس! ( قبیلہ اسلم کے ایک صحابی ) اس کی بیوی کے پاس جاؤ‘ اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اسے رجم کردو ۔ چنانچہ انیس رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور اس نے اقرار کر لیا پھر انیس رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کر ڈالا۔
تشریح : باب کی مطابقت اس سے نکلی کہ آپ نے ایک شخص واحد کو ایذا کا حکم دیا ۔ اس نے حکم شرعی یعنی رجم جاری کیا ۔ بعضوں نے کہا آپ نے ہر فریق کی جو ایک تن تنہا تھا بات قبول کی اس کی تصدیق فرمائی ۔ امام ابن قیم نے فرمایا ‘ خبر واحد تین قسم کی ہے ایک یہ کہ قرآن کے موافق ہو ‘ دوسرے یہ کہ اس میں قرآن کی تفصیل ہو ‘ تیسرے یہ کہ اس میں ایک نیا حکم ہو جو قرآن میں نہیں ہے ۔ بہر حال میں اس کا اتباع واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جدگانہ حکم دیا ۔ پس اگر خبر واحد وہی قابل قبول ہو جو قرآن کے موافق ہے تو رسول کی اطاعت علیحدہ اور خاص نہیں ہوئی اور حنفیہ جو کہتے ہیں کہ قرآن پر زیادتی خبر واحد سے نہیں ہوسکتی بلکہ خبر مشہور یا متواتر ہونا ضرور ہے ۔ انہوں نے بہت سے مسائل میں اپنے اس اصول کے خود خلاف کیا ہے جیسے نبیذ تمر سے وضو کے جواز اور نصاب سرقہ اور مہر دس درہم سے کم نہ ہونا اور ایک عورت اور اس کی پھو پھی یا خالہ میں جمع حرام ہونا اور شفعہ یا رہن اور صد ہا مسائل میں جن میں آحادیث وارد ہیں اور باوجود اس کے حنفیہ نے اس سے کلام اللہ پر زیادت کی ہے ۔ میں کہتا ہوں حنفیہ کا کوئی اصول جمتا ہی نہیں ہے ۔ اصول میں تو یہ لکھتے ہیں کہ خبر واحد اور قول صحابی بھی حجت ہے یترک بہ القیاس اور پھر صدہا مسائل میں حدیث کے خلاف قیاس پر عمل کرتے ہیں ۔ اصول میں لکھتے ہیں کہ کتاب اللہ پر زیادت کے لیے خبر مشہور یا متواتر ضرور ہے اور پھر مسائل میں خبر واحد سے زیادت کرتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں وہاں خبر مشہور کو بھی یہ بہانہ کر کے مخالف کتاب اللہ ہے ترک کردیتے ہیں ۔ مثلاً یمین مع الشاہد الواحد کی احادیث کو ۔ غرض یہ عجب اصول ہیں جو کچھ سمجھ میں نہیں آتے اور حق یہ ہے کہ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اصول نہیں ہیں خود پچھلوں نے قائم کئے ہیں اور وہی حق تعالیٰ کے پاس جواب دار بنیں گے اللہ انصاف نصیب کرے ۔ باب کی مطابقت اس سے نکلی کہ آپ نے ایک شخص واحد کو ایذا کا حکم دیا ۔ اس نے حکم شرعی یعنی رجم جاری کیا ۔ بعضوں نے کہا آپ نے ہر فریق کی جو ایک تن تنہا تھا بات قبول کی اس کی تصدیق فرمائی ۔ امام ابن قیم نے فرمایا ‘ خبر واحد تین قسم کی ہے ایک یہ کہ قرآن کے موافق ہو ‘ دوسرے یہ کہ اس میں قرآن کی تفصیل ہو ‘ تیسرے یہ کہ اس میں ایک نیا حکم ہو جو قرآن میں نہیں ہے ۔ بہر حال میں اس کا اتباع واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جدگانہ حکم دیا ۔ پس اگر خبر واحد وہی قابل قبول ہو جو قرآن کے موافق ہے تو رسول کی اطاعت علیحدہ اور خاص نہیں ہوئی اور حنفیہ جو کہتے ہیں کہ قرآن پر زیادتی خبر واحد سے نہیں ہوسکتی بلکہ خبر مشہور یا متواتر ہونا ضرور ہے ۔ انہوں نے بہت سے مسائل میں اپنے اس اصول کے خود خلاف کیا ہے جیسے نبیذ تمر سے وضو کے جواز اور نصاب سرقہ اور مہر دس درہم سے کم نہ ہونا اور ایک عورت اور اس کی پھو پھی یا خالہ میں جمع حرام ہونا اور شفعہ یا رہن اور صد ہا مسائل میں جن میں آحادیث وارد ہیں اور باوجود اس کے حنفیہ نے اس سے کلام اللہ پر زیادت کی ہے ۔ میں کہتا ہوں حنفیہ کا کوئی اصول جمتا ہی نہیں ہے ۔ اصول میں تو یہ لکھتے ہیں کہ خبر واحد اور قول صحابی بھی حجت ہے یترک بہ القیاس اور پھر صدہا مسائل میں حدیث کے خلاف قیاس پر عمل کرتے ہیں ۔ اصول میں لکھتے ہیں کہ کتاب اللہ پر زیادت کے لیے خبر مشہور یا متواتر ضرور ہے اور پھر مسائل میں خبر واحد سے زیادت کرتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں وہاں خبر مشہور کو بھی یہ بہانہ کر کے مخالف کتاب اللہ ہے ترک کردیتے ہیں ۔ مثلاً یمین مع الشاہد الواحد کی احادیث کو ۔ غرض یہ عجب اصول ہیں جو کچھ سمجھ میں نہیں آتے اور حق یہ ہے کہ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اصول نہیں ہیں خود پچھلوں نے قائم کئے ہیں اور وہی حق تعالیٰ کے پاس جواب دار بنیں گے اللہ انصاف نصیب کرے ۔