‌صحيح البخاري - حدیث 7249

كِتَابُ أَخْبَارِ الآحَادِ بَابُ مَا جَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِ الوَاحِدِ الصَّدُوقِ فِي الأَذَانِ وَالصَّلاَةِ وَالصَّوْمِ وَالفَرَائِضِ وَالأَحْكَامِ صحيح حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ خَمْسًا فَقِيلَ أَزِيدَ فِي الصَّلَاةِ قَالَ وَمَا ذَاكَ قَالُوا صَلَّيْتَ خَمْسًا فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7249

کتاب: خبر واحد کے بیان میں باب : ایک سچے شخص کی خبر پر اذان نماز روزے فرائض سارے احکام میں عمل ہونا ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا ‘کہا ہم سے شعبہ نے ‘ ان سے حکم بن عتبہ نے ‘ ان سے ابراہیم نخعی نے ‘ ان سے علقمہ بن قیس نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ظہر کی پانچ رکعت نماز پڑھائی تو آپ سے پوچھا گیا کیا نماز ( کی رکعتوں ) میں کچھ بڑھ گیا ہے َ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ‘ کیا بات ہے َ؟ صحابہ نے کہا کہ آپ نے پانچ رکعت نماز پڑھائی ہے ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کے بعد دو سجدے ( سہو کے ) کئے۔
تشریح : اگر چہ اس روایت کی تطبیق ترجمہ باب سے مشکل ہے کیونکہ یہ کہنے والے کہ آپ نے پانچ رکعت پڑھی ہیں۔ کئی آدمی معلوم ہوتے ہیں لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جسے خود انہوں نے کتاب الصلوٰۃ باب اذا صلٰی خمساً میں روایت کیا۔ اس میں یہ صیغہ مفردیوں ہے کہ قال صلیت خمسا تو باب کی مطابقت حاصل ہو گئی ۔ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے کہنے پر عمل کیا ۔ حافظ نے کہا کہ ایک شخص کا نام معلوم نہ ہو سکا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک شخص کے کہنے پر اعتبار کر لیا اگر ایک معتبر آدمی کا کہنا نا قابل اعتبار ہوتا تو آپ ایسا کیوں کرتے ۔ معلوم ہوا کہ شخص واحد معتبر کی روایت کو تسلیم کرنا عقلاً ونقلاً ہر طرح سے درست ہے جو لوگ مطلق خبر واحد کے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں ان کایہ کہنا کسی طرح سے بھی درست نہیں ہے ۔ اگر چہ اس روایت کی تطبیق ترجمہ باب سے مشکل ہے کیونکہ یہ کہنے والے کہ آپ نے پانچ رکعت پڑھی ہیں۔ کئی آدمی معلوم ہوتے ہیں لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جسے خود انہوں نے کتاب الصلوٰۃ باب اذا صلٰی خمساً میں روایت کیا۔ اس میں یہ صیغہ مفردیوں ہے کہ قال صلیت خمسا تو باب کی مطابقت حاصل ہو گئی ۔ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے کہنے پر عمل کیا ۔ حافظ نے کہا کہ ایک شخص کا نام معلوم نہ ہو سکا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک شخص کے کہنے پر اعتبار کر لیا اگر ایک معتبر آدمی کا کہنا نا قابل اعتبار ہوتا تو آپ ایسا کیوں کرتے ۔ معلوم ہوا کہ شخص واحد معتبر کی روایت کو تسلیم کرنا عقلاً ونقلاً ہر طرح سے درست ہے جو لوگ مطلق خبر واحد کے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں ان کایہ کہنا کسی طرح سے بھی درست نہیں ہے ۔