كِتَابُ التَّمَنِّي بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ اللَّوْ صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْلَا الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنْ الْأَنْصَارِ وَلَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ وَشِعْبَهَا تَابَعَهُ أَبُو التَّيَّاحِ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الشِّعْبِ
کتاب: نیک ترین آرزؤں کے جائز ہونے کے بیان میں
باب : لفظ” اگر مگر“ کے استعمال کا جواز
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن یحییٰ نے ‘ ان سے عباد بن تمیم نے اور ان سے عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار کا ایک فرد ہوتا اور اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا ۔ اس روایت کی متابعت ابو التیاح نے کی ‘ ان سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ اس میں بھی درے کا ذکر ہے ۔
تشریح :
یہ حدیث کتاب المغازی میں موصولاً گزرچکی ہے ۔ اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث کو جمع کیا جن میں اگر کا لفظ ہے تو معلوم ہوا کہ اگر مگر کہنا مطلقاً منع نہیں ہے اور دوسری حدیث میں جو آیا ہے اگر مگر سے بچا رہ وہ خاص مقاموں پر محمول ہے یعنی جب کسی کار خیر کا ارادہ کرے اور اس پر قدرت ہو تو اس کو کرڈالے ۔ اس میں اگر مگر نہ نکالے ۔ دوسرے جب کوئی مصیبت پیش آئے کچھ نقصان ہو جائے تو اللہ کی تقدیر اور اس کے ارادے سے سمجھے ۔ اس میں بھی اگر مگر نکالنا اور یوں کہنا اگر ہم ایسا کرتے تو یہ آفت نہ آتی منع ہے کیونکہ اس میں تقدیر الٰہی پر بے اعتمادی اور اپنی تدبیر پر بھروسہ نکلتا ہے ۔
یہ حدیث کتاب المغازی میں موصولاً گزرچکی ہے ۔ اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث کو جمع کیا جن میں اگر کا لفظ ہے تو معلوم ہوا کہ اگر مگر کہنا مطلقاً منع نہیں ہے اور دوسری حدیث میں جو آیا ہے اگر مگر سے بچا رہ وہ خاص مقاموں پر محمول ہے یعنی جب کسی کار خیر کا ارادہ کرے اور اس پر قدرت ہو تو اس کو کرڈالے ۔ اس میں اگر مگر نہ نکالے ۔ دوسرے جب کوئی مصیبت پیش آئے کچھ نقصان ہو جائے تو اللہ کی تقدیر اور اس کے ارادے سے سمجھے ۔ اس میں بھی اگر مگر نکالنا اور یوں کہنا اگر ہم ایسا کرتے تو یہ آفت نہ آتی منع ہے کیونکہ اس میں تقدیر الٰہی پر بے اعتمادی اور اپنی تدبیر پر بھروسہ نکلتا ہے ۔