كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ إِثْمِ مَنْ لَمْ يُتِمَّ الصُّفُوفَ صحيح حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الفَضْلُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّائِيُّ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ قَدِمَ المَدِينَةَ فَقِيلَ لَهُ: مَا أَنْكَرْتَ مِنَّا مُنْذُ يَوْمِ عَهِدْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: «مَا أَنْكَرْتُ شَيْئًا إِلَّا أَنَّكُمْ لاَ تُقِيمُونَ الصُّفُوفَ» وَقَالَ عُقْبَةُ بْنُ عُبَيْدٍ: عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، قَدِمَ عَلَيْنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ المَدِينَةَ بِهَذَا
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
باب: صفیں برابر نہ کرنے والوں کا گناہ
ہم سے معاذ بن اسد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے فضل بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید بن عبید طائی نے بیان کیا بشیر بن یسار انصاری سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ جب وہ ( بصرہ سے ) مدینہ آئے، تو آپ سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک اور ہمارے اس دور میں آپ نے کیا فرق پایا۔ فرمایا کہ اور تو کوئی بات نہیں صرف لوگ صفیں برابر نہیں کرتے۔ اور عقبہ بن عبید نے بشیر بن یسار سے یوں روایت کیا کہ انس رضی اللہ عنہ ہمارے پاس مدینہ تشریف لائے۔ پھر یہی حدیث بیان کی۔
تشریح :
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث لاکر صف برابر کرنے کا وجوب ثابت کیا ہے کیوں کہ سنت کے ترک کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کرنا نہیں کہہ سکتے، اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرنا بموجب نص قرآنی باعث عذاب ہے۔ فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبہم فتنۃ او یصیبہم عذاب الیم ( النور:63 ) تسہیل القاری میں ہے کہ ہمارے زمانہ میں لوگوں نے سنت کے موافق صفیں برابر کرنا چھوڑ دی ہیں کہیں تو ایسا ہوتا ہے کہ آگے پیچھے بے ترتیب کھڑے ہوتے ہیں کہیں برابر بھی کرتے ہیں تو مونڈھے سے مونڈھا اور ٹخنے سے ٹخنہ نہیں ملاتے۔ بلکہ ایسا کرنے کو نازیبا جانتے ہیں۔ خدا کی مار ان کی عقل اور تہذیب پر۔ نمازی لوگ پروردگار کی فوجیں ہیں۔ فوج میں جو کوئی قاعدے کی پابندی نہ کرے وہ سزائے سخت کے قابل ہوتا ہے۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث لاکر صف برابر کرنے کا وجوب ثابت کیا ہے کیوں کہ سنت کے ترک کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کرنا نہیں کہہ سکتے، اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرنا بموجب نص قرآنی باعث عذاب ہے۔ فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبہم فتنۃ او یصیبہم عذاب الیم ( النور:63 ) تسہیل القاری میں ہے کہ ہمارے زمانہ میں لوگوں نے سنت کے موافق صفیں برابر کرنا چھوڑ دی ہیں کہیں تو ایسا ہوتا ہے کہ آگے پیچھے بے ترتیب کھڑے ہوتے ہیں کہیں برابر بھی کرتے ہیں تو مونڈھے سے مونڈھا اور ٹخنے سے ٹخنہ نہیں ملاتے۔ بلکہ ایسا کرنے کو نازیبا جانتے ہیں۔ خدا کی مار ان کی عقل اور تہذیب پر۔ نمازی لوگ پروردگار کی فوجیں ہیں۔ فوج میں جو کوئی قاعدے کی پابندی نہ کرے وہ سزائے سخت کے قابل ہوتا ہے۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )