كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابٌ: هَلْ لِلْإِمَامِ أَنْ يَمْنَعَ المُجْرِمِينَ وَأَهْلَ المَعْصِيَةِ مِنَ الكَلاَمِ مَعَهُ وَالزِّيَارَةِ وَنَحْوِهِ صحيح حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ لَمَّا تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَذَكَرَ حَدِيثَهُ وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمِينَ عَنْ كَلَامِنَا فَلَبِثْنَا عَلَى ذَلِكَ خَمْسِينَ لَيْلَةً وَآذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَوْبَةِ اللَّهِ عَلَيْنَا
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
باب : کیا امام کے لیے جائز ہے کہ وہ مجرموں اور گنہگاروں کو اپنے ساتھ بات چیت کرنے اور ملاقات وغیرہ کرنے سے روک دے۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے عبد الرحمن بن عبد اللہ بن کعب بن مالک نے کہ عبد اللہ بن کعب بن مالک ‘کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے نا بینا ہو جانے کے زمانے میں ان کے سب لڑکوں میں یہی راستے میں ان کے ساتھ چلتے تھے‘ نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں جاسکتے تھے ‘ پھر انہوں نے اپنا پورا واقعہ بیان کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانو ں کو ہم سے گفتگو کرنے سے روک دیا تھا تو ہم پچاس دی اسی حالت میں رہے ‘ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ اللہ نے ہماری توبہ قبول کرلی ہے ۔
تشریح :
حضرت کعب بن مالک نے غزوہ تبوک سے بلا اجازت غیر حاضری کی تھی اور یہ بڑا بھاری جرم تھا جو ان سے صادر ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اور ان کے ساتھیوں سے پورا ترک مواملات فرمایا حتیٰ کہ ان کی توبہ اللہ نے قبول کی ۔ اب ایسے معاملات خلیفہ اسلام کی صواب دید پر موقوف کئے جاسکتے ہیں ۔
حضرت کعب بن مالک نے غزوہ تبوک سے بلا اجازت غیر حاضری کی تھی اور یہ بڑا بھاری جرم تھا جو ان سے صادر ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اور ان کے ساتھیوں سے پورا ترک مواملات فرمایا حتیٰ کہ ان کی توبہ اللہ نے قبول کی ۔ اب ایسے معاملات خلیفہ اسلام کی صواب دید پر موقوف کئے جاسکتے ہیں ۔