‌صحيح البخاري - حدیث 7219

كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ الِاسْتِخْلاَفِ صحيح حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامٌ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ خُطْبَةَ عُمَرَ الْآخِرَةَ حِينَ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَذَلِكَ الْغَدَ مِنْ يَوْمٍ تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَشَهَّدَ وَأَبُو بَكْرٍ صَامِتٌ لَا يَتَكَلَّمُ قَالَ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَعِيشَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَدْبُرَنَا يُرِيدُ بِذَلِكَ أَنْ يَكُونَ آخِرَهُمْ فَإِنْ يَكُ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ جَعَلَ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ نُورًا تَهْتَدُونَ بِهِ هَدَى اللَّهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَانِيَ اثْنَيْنِ فَإِنَّهُ أَوْلَى الْمُسْلِمِينَ بِأُمُورِكُمْ فَقُومُوا فَبَايِعُوهُ وَكَانَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ قَدْ بَايَعُوهُ قَبْلَ ذَلِكَ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ وَكَانَتْ بَيْعَةُ الْعَامَّةِ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ الزُّهْرِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ لِأَبِي بَكْرٍ يَوْمَئِذٍ اصْعَدْ الْمِنْبَرَ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّى صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَبَايَعَهُ النَّاسُ عَامَّةً

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7219

کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں باب : ایک خلیفہ مرتے وقت کسی اور کو خلیفہ کرجائے تو کیسا ہے ؟ ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو ہشام نے خبر دی ‘ انہیں معمر نے ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبردی کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کا دوسرا خطبہ سنا جب آپ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے ‘ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دوسرے دن کا ہے ۔ انہوں نے کلمہ شہادت پڑھا ‘ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خاموش تھے اور کچھ نہیں بول رہے تھے ‘ پھر کہا مجھے امید تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہیں گے اور ہمارے کاموں کی تدبیر وانتظام کرتے رہیں گے ۔ ان کا منشا یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سب لوگوں کے بعد تک زندہ رہیں گے تو اگر آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے نور ( قرآن ) کو باقی رکھا ہے جس کے ذریعہ تم ہدایت حاصل کرتے رہو گے اور اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے ہدایت کی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ( جو غار ثور میں ) دو میں کے دوسرے ہیں ‘ بلا شک وہ تمہارے امور خلافت کے لیے تمام مسلمانوں میں سب سے بہتر ہیں ۔ پس اٹھو اور ان سے بیعت کرو۔ ایک جماعت ان سے پہلے ہی سقیفہ بنی ساعدہ میں بیعت کرچکی تھی ‘ پھر عام لوگوں نے منبر پر بیعت کی ۔ زہری نے بیان کیا‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ‘ انہوں نے عمر صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ‘ اس دن کہہ ہے تھے‘ منبر پر چڑھ آئےے۔ چنانچہ وہ اس کا برابر اصرار کرتے رہے ‘ یہاں تک کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھ گئے اور سب لوگوں نے آپ سے بیعت کی ۔
تشریح : سقیفہ کا ترجمہ مولاناوحید الزمان رحمہ اللہ نے منڈو سے کیا ہے ۔ عرف عام میں بنو ساعدہ کی چو پالی ٹھیک ہے ۔ کانت مکان اجتما عھم للحکومات یعنی وہ پنچائت گھر تھا ۔ ابن معین نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اصرار حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کومنبر پر چڑھانے درست تھا تا کہ آپ کا سب سے تعارف ہو جائے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تواضع کی بنا پر چڑھنے سے انکار کررہے تھے ۔ آخر چڑھ گئے اور اب بیعت عمومی ہوئی جب کہ سقیفہ بنو ساعدہ کی بیعت خصوصی تھی ۔ باب کی مناسبت اس سے نکلی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت فرما یا وہ تم سب میں خلافت کے زیادہ مستحق اور زیادہ لائق ہیں ۔ شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کے زور اور اصرار سے ہوئی ورنہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ بالکل درویش صفت اور منکسر المزاج اور خلافت سے متنفر تھے۔ ہم کہتے ہیں اگر ایسا ہی ہو جب بھی کیا قباحب ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے نزدیک جس جو خلافت کے لائق سمجھا اس کے لیے زور دیا اور حق پسند لوگوں کا یہی قاعدہ ہوتا ہے ۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ رائے غلط ہوتی تو دوسرے صد ہا ہزار ہا صحابہ جو وہاں موجود تھے وہ کیوں اتفگاق کرتے ۔ غرض با جماع صحابہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلافت کے اہل اور قابل ٹھہرے۔ سقیفہ کا ترجمہ مولاناوحید الزمان رحمہ اللہ نے منڈو سے کیا ہے ۔ عرف عام میں بنو ساعدہ کی چو پالی ٹھیک ہے ۔ کانت مکان اجتما عھم للحکومات یعنی وہ پنچائت گھر تھا ۔ ابن معین نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اصرار حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کومنبر پر چڑھانے درست تھا تا کہ آپ کا سب سے تعارف ہو جائے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تواضع کی بنا پر چڑھنے سے انکار کررہے تھے ۔ آخر چڑھ گئے اور اب بیعت عمومی ہوئی جب کہ سقیفہ بنو ساعدہ کی بیعت خصوصی تھی ۔ باب کی مناسبت اس سے نکلی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت فرما یا وہ تم سب میں خلافت کے زیادہ مستحق اور زیادہ لائق ہیں ۔ شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کے زور اور اصرار سے ہوئی ورنہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ بالکل درویش صفت اور منکسر المزاج اور خلافت سے متنفر تھے۔ ہم کہتے ہیں اگر ایسا ہی ہو جب بھی کیا قباحب ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے نزدیک جس جو خلافت کے لائق سمجھا اس کے لیے زور دیا اور حق پسند لوگوں کا یہی قاعدہ ہوتا ہے ۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ رائے غلط ہوتی تو دوسرے صد ہا ہزار ہا صحابہ جو وہاں موجود تھے وہ کیوں اتفگاق کرتے ۔ غرض با جماع صحابہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلافت کے اہل اور قابل ٹھہرے۔