‌صحيح البخاري - حدیث 7218

كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ الِاسْتِخْلاَفِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قِيلَ لِعُمَرَ أَلَا تَسْتَخْلِفُ قَالَ إِنْ أَسْتَخْلِفْ فَقَدْ اسْتَخْلَفَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي أَبُو بَكْرٍ وَإِنْ أَتْرُكْ فَقَدْ تَرَكَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَثْنَوْا عَلَيْهِ فَقَالَ رَاغِبٌ رَاهِبٌ وَدِدْتُ أَنِّي نَجَوْتُ مِنْهَا كَفَافًا لَا لِي وَلَا عَلَيَّ لَا أَتَحَمَّلُهَا حَيًّا وَلَا مَيِّتًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7218

کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں باب : ایک خلیفہ مرتے وقت کسی اور کو خلیفہ کرجائے تو کیسا ہے ؟ ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی ‘ انہیں ہشام بن عروہ نے ‘ انہیں ان کے والد نے اور ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب زخمی ہوئے تو ان سے کہا گیا کہ آپ اپنا خلیفہ منتخب کرتا ہوں ( تو اس کی بھی مثال ہے کہ ) اس شخص نے اپنا خلیفہ منتخب کیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے یعنی ابو بکر رضی اللہ عنہ اور اگر میں اسے مسلمانوں کی رائے پر چھوڑ تا ہوں تو ( اس کی بھی مثال موجود ہے کہ ) اس بزرگ نے ( خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کے لیے ) چھوڑ دیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پھر لوگوں نے آپ کی تعریف کی ‘پھر انہوں نے کہا کہ کوئی تو دل سے میری تعریف کرتا ہے کوئی ڈر کر ۔ اب میں تو یہی غنیمت سمجھتا ہوں کہ خلافت کی ذمہ داریوں میں اللہ کے ہاں برابر برابر ہی چھوٹ جاؤں ‘ نہ مجھے کچھ ثواب ملے اور نہ کوئی عذاب میں نے خلافت کا بوجھ اپنی زندگی بھر اٹھا یا ۔ اب مرنے پر میں اس بار کو نہیں اٹھاؤں گا ۔
تشریح : سبحان اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی احتیاط انہوں نے جب دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کسی کو خلیفہ نہیں کیا ‘ مسلمانوں کی رائے پر چھوڑ ا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ کر گئے تو وہ ایسے رستے چلے جس میں دونوں کی پیروی ہو جاتی ہے یعنی کچھ مشورہ پر چھوڑ ا کچھ مقرر کردیا ۔ انہوں نے چھ آدمیوں کو اس وقت افضل اور اعلیٰ تھے‘ معین کیا پھر ان چھ میں سے کسی کی تعیین مسلمانوں کی رائے پر چھوڑدی ۔ گویا دونوں سنتوں پر عمل کیا ۔ دوسرے تقویٰ شعاری دیکھئے کہ عشرہ مبشرہ میں سے سعید بن زید بھی زندہ تھے مگر ان کا نام تک نہ لیا ‘ اس خیال سے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کچھ رشتہ رکھتے تھے ۔ ہائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح مسلمانوں میں کون بے نفس اور عادل مصنف پیدا ہوا ہے ۔ ان کا ایک ایک کام ایسا ہے جو ان کی فضیلت پہچاننے کے لیے کافی ہے اور افسوس ہے ان عقل کے اندھوں پر جو ایسے فرد فرید کو جسکا نظیر اسلام میں نہیں ہوا برا جانتے ہیں ۔ سبحان اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی احتیاط انہوں نے جب دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کسی کو خلیفہ نہیں کیا ‘ مسلمانوں کی رائے پر چھوڑ ا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ کر گئے تو وہ ایسے رستے چلے جس میں دونوں کی پیروی ہو جاتی ہے یعنی کچھ مشورہ پر چھوڑ ا کچھ مقرر کردیا ۔ انہوں نے چھ آدمیوں کو اس وقت افضل اور اعلیٰ تھے‘ معین کیا پھر ان چھ میں سے کسی کی تعیین مسلمانوں کی رائے پر چھوڑدی ۔ گویا دونوں سنتوں پر عمل کیا ۔ دوسرے تقویٰ شعاری دیکھئے کہ عشرہ مبشرہ میں سے سعید بن زید بھی زندہ تھے مگر ان کا نام تک نہ لیا ‘ اس خیال سے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کچھ رشتہ رکھتے تھے ۔ ہائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح مسلمانوں میں کون بے نفس اور عادل مصنف پیدا ہوا ہے ۔ ان کا ایک ایک کام ایسا ہے جو ان کی فضیلت پہچاننے کے لیے کافی ہے اور افسوس ہے ان عقل کے اندھوں پر جو ایسے فرد فرید کو جسکا نظیر اسلام میں نہیں ہوا برا جانتے ہیں ۔