كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ الِاسْتِخْلاَفِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَارَأْسَاهْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرُ لَكِ وَأَدْعُو لَكِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ وَا ثُكْلِيَاهْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِي وَلَوْ كَانَ ذَاكَ لَظَلَلْتَ آخِرَ يَوْمِكَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ أَنَا وَارَأْسَاهْ لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ فَأَعْهَدَ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَنُّونَ ثُمَّ قُلْتُ يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى الْمُؤْمِنُونَ
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
باب : ایک خلیفہ مرتے وقت کسی اور کو خلیفہ کرجائے تو کیسا ہے ؟
ہم سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا‘ کہا ہم کو سلیمان بن بلال نے خبر دی ‘ انہیں یحییٰ بن سعید نے ‘ کہامیں نے قاسم بن محمد سے سنا کہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا ( اپنے سردرد پر ) ہائے سر پھٹا جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اگر تم مر جاؤ اور میں زندہ رہا تو میں تمہارے لیے مغفرت کروںگا اور تمہارے لیے دعا کروں گا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا افسوس میرا خیال ہے کہ آپ میری موت چاہتے ہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو آپ دن کے آخری وقت ضرور کسی دوسری عورت سے شادی کرلیں گے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نہیں بلکہ میں اپنا سر دکھنے کا اظہار کرتا ہوں ۔ میرا ارادہ ہوا تھا کہ ابو بکر اور انکے بیٹے کو بلا بھیجوں اور انہیں ( ابو بکر کو ) خلیفہ بنا دوں تا کہ اس پر کسی دعویٰ کرنے والے یا اسکی خواہش رکھنے والے کے لئے کوئی گنجائش نہ رہے لیکن پھر میں نے سوچا کہ اللہ خود ( کسی دوسرے کو خلیفہ ) نہیں ہونے دے گا اور مسلمان بھی اسے دفع کریں گے ۔ یا ( آپ نے اس طرح فرمایا کہ ) اللہ دفع کرے گا اور مسلمان کسی اور کو خلیفہ نہ ہونے دیں گے ۔
تشریح :
دوسری روایت میں یوں ہے کہ آپ نے مرض موت میں فرمایا عائشہ ! اپنے باپ اور بھائی کو بلا لو تا کہ میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت لکھ جاؤں۔ اس کے آخر میں بھی یہ ہے کہ اللہ پاک اور مسلمان لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سوا اور کسی کی خلافت نہیں مانیں گے ۔ اس حدیث سے صاف معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت ارادہ الٰہی اور مرضی نبوی کے موافق تھی ۔ اب جو لوگ ایسے پاک نفس خلیفہ کو غاصب اور ظالم جانتے ہیں وہ خود ناپاک اور پلید ہیں ۔
دوسری روایت میں یوں ہے کہ آپ نے مرض موت میں فرمایا عائشہ ! اپنے باپ اور بھائی کو بلا لو تا کہ میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت لکھ جاؤں۔ اس کے آخر میں بھی یہ ہے کہ اللہ پاک اور مسلمان لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سوا اور کسی کی خلافت نہیں مانیں گے ۔ اس حدیث سے صاف معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت ارادہ الٰہی اور مرضی نبوی کے موافق تھی ۔ اب جو لوگ ایسے پاک نفس خلیفہ کو غاصب اور ظالم جانتے ہیں وہ خود ناپاک اور پلید ہیں ۔