كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ تَرْجَمَةِ الحُكَّامِ، وَهَلْ يَجُوزُ تَرْجُمَانٌ وَاحِدٌ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ: أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَكْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا، فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ، فَذَكَرَ الحَدِيثَ، فَقَالَ لِلتُّرْجُمَانِ: قُلْ لَهُ: إِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا، فَسَيَمْلِكُ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
باب : حاکم کے سامنے مترجم کا رہنا اور کیا ایک ہی شخص ترجمانی کے لئے کافی ہے ۔
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا‘ کہا ہم کو شعیب نے خبردی انہیں زہری نے ‘ انہیں عبید اللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے خبردی کہ ابو سفیان بن حرب نے انہیں خبر دی کہ ہرقل نے انہیں قریش کی ایک جماعت کے ساتھ بلا بھیجا ‘ پھر اپنے ترجمان سے کہا ‘ ان سے کہو کہ میں ان کے بارے میں پوچھوں گا ۔ اگر یہ مجھ سے جھوٹ بات کہے تو اسے جھٹلادیں ۔ پھر پوری حدیث بین کی‘ پھر اس نے ترجمان سے کہا‘ان سے کہوکہ میں ان کے بارے میں پوچھوں گا ۔ اگر یہ مجھ سے جھوٹ بات کہے تو اسے جھٹلادیں ۔ پھر پوری حدیث بیان کی، پھر اس نے ترجمان سے کہا ‘ اس سے کہو کہ اگر تمہاری باتیں صحیح ہیں تو وہ شخص اس ملک کا بھی ہو جائے گا جو اس وقت میرے قدموں کے نیچے ہے ۔
تشریح :
یہاں یہ اعتراض ہوا ہے کہ ہرقل کا فعل کیا حجت ہے وہ تو کافر تھا ۔ نصرانیوں نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ گوہرقل کافر ہے مگر اگلے پیغمبروں کی کتابوں اور ان کے حالات سے خوب واقف تھا تو گو یا پہلی شریعتوں میں بھی ایک ہی مترجم کا ترجمہ کرنا کافی سمجھا جاتا تھا ۔ بعضوں نے کہا کہ ہرقل کے فعل سے غرض نہیں بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جو اس امت کے عالم تھے اس قصے کو نقل کیا اور اس پر یہ اعتراض نہ کیا کہ ایک شخص کا ترجمہ غیر کافی تھا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک شخص کی مترجمی کافی سمجھتے تھے ۔
یہاں یہ اعتراض ہوا ہے کہ ہرقل کا فعل کیا حجت ہے وہ تو کافر تھا ۔ نصرانیوں نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ گوہرقل کافر ہے مگر اگلے پیغمبروں کی کتابوں اور ان کے حالات سے خوب واقف تھا تو گو یا پہلی شریعتوں میں بھی ایک ہی مترجم کا ترجمہ کرنا کافی سمجھا جاتا تھا ۔ بعضوں نے کہا کہ ہرقل کے فعل سے غرض نہیں بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جو اس امت کے عالم تھے اس قصے کو نقل کیا اور اس پر یہ اعتراض نہ کیا کہ ایک شخص کا ترجمہ غیر کافی تھا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک شخص کی مترجمی کافی سمجھتے تھے ۔