كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ تَرْجَمَةِ الحُكَّامِ، وَهَلْ يَجُوزُ تَرْجُمَانٌ وَاحِدٌ صحيح وَقَالَ خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ «أَنْ يَتَعَلَّمَ كِتَابَ اليَهُودِ» حَتَّى كَتَبْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُتُبَهُ، وَأَقْرَأْتُهُ كُتُبَهُمْ، إِذَا كَتَبُوا إِلَيْهِ وَقَالَ عُمَرُ وَعِنْدَهُ عَلِيٌّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَعُثْمَانُ: «مَاذَا تَقُولُ هَذِهِ؟»، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَاطِبٍ: فَقُلْتُ: تُخْبِرُكَ بِصَاحِبِهَا الَّذِي صَنَعَ بِهَا وَقَالَ أَبُو جَمْرَةَ: كُنْتُ أُتَرْجِمُ بَيْنَ ابْنِ عَبَّاسٍ وَبَيْنَ النَّاسِ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: لاَ بُدَّ لِلْحَاكِمِ مِنْ مُتَرْجِمَيْنِ
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
باب : حاکم کے سامنے مترجم کا رہنا اور کیا ایک ہی شخص ترجمانی کے لئے کافی ہے ۔
اور خارجہ بن زید بن ثابت نے اپنے والد زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ یہودیوں کی تحریر سیکھیں ‘ یہاں تک کہ میں یہودیوں کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط لکھتا تھا اور جب یہودی آپ کو لکھتے تو ان کے خطوط آپ کو پڑھ کر سنا تھا تھا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمن بن حاطب سے پوچھا‘اس وقت ان کے پاس علی ‘ عبد الرحمن اور عثمان رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے کہ یہ لونڈی کیا کہتی ہے؟ عبد الرحمن بن حاطب نے کہا کہ امیر المؤمنین یہ آپ کو اس کے متعلق بتاتی ہے جس نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے ۔ ( جو یر غوس نام کا غلام تھا ) اور ابو جمرہ نے کہا کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کرتا تھا اور بعض لوگوں ( امام محمد اور شافعی ) نے کہا کہ حاکم کے لیے دو ترجموں کا ہونا ضروری ہے ۔
تشریح :
ترجمان ایک بھی کافی ہے جب وہ ثقہ اور عادل ہو ۔ امام مالک کا یہی قول ہے اور امام ابو حنیفہ اور امام احمد بھی اس کے قائل ہیں ۔ امام بخاری کا بھی یہی قول معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن شافعی نے کہا کہ جب حاکم فریقین یا ایک فریق کی زبان نہ سمجھتا ہو تو دو شخص عادل بطور مترجم کے ضرور ہیں جو حاکم کو اس کا بیان ترجمہ کر کے سنائیں ۔ خارجیہ کے قول کو امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ میں واصل کیا ۔ کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ایسے ذہین تھے کہ پندرہ دن کی محنت میں یہود کی کتابت پڑھنے لگے اور لکھنے لگے ۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کافروں کی زبان اور تحریر دونوں سیکھنا درست ہیں۔ خصوصاً جب ضرورت ہو ۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ سے فرما یا تھا کہ یہودیوں سے لکھوانے میں اطمینانہیں ہوتا ۔ لونڈی نے اپنی زبان میں کہا کہ فلاں غلام پر غوس نامی نے مجھ سے زنا کیا اور کہا کہ حاملہ ہوں ۔ اس کو عبد الرزاق اور سعید بن منصور نے وصل کیا ۔ ابو جمرہ کی یہ حدیث پیچھے کتاب العلم میں موصولاً گزر چکی ہے پس ثابت ہوا کہ ترجمہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے شہادت پر قیاس کیا ہے ۔ یہاں سے ان لوگوں کا جواب ہو گیا جو کہتے ہیں امام بخاری نے بعض الناس کے لفظ سے امام ابو حنیفہ کی تحقیر کی ہے کیونکہ بعض الناس کوئی تحقیر کا کلمہ نہیں اگر تحقیر کا کلمہ ہوتا تو امام شافعی کے لیے کیونکر استعمال کرتے ۔
ترجمان ایک بھی کافی ہے جب وہ ثقہ اور عادل ہو ۔ امام مالک کا یہی قول ہے اور امام ابو حنیفہ اور امام احمد بھی اس کے قائل ہیں ۔ امام بخاری کا بھی یہی قول معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن شافعی نے کہا کہ جب حاکم فریقین یا ایک فریق کی زبان نہ سمجھتا ہو تو دو شخص عادل بطور مترجم کے ضرور ہیں جو حاکم کو اس کا بیان ترجمہ کر کے سنائیں ۔ خارجیہ کے قول کو امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ میں واصل کیا ۔ کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ایسے ذہین تھے کہ پندرہ دن کی محنت میں یہود کی کتابت پڑھنے لگے اور لکھنے لگے ۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کافروں کی زبان اور تحریر دونوں سیکھنا درست ہیں۔ خصوصاً جب ضرورت ہو ۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ سے فرما یا تھا کہ یہودیوں سے لکھوانے میں اطمینانہیں ہوتا ۔ لونڈی نے اپنی زبان میں کہا کہ فلاں غلام پر غوس نامی نے مجھ سے زنا کیا اور کہا کہ حاملہ ہوں ۔ اس کو عبد الرزاق اور سعید بن منصور نے وصل کیا ۔ ابو جمرہ کی یہ حدیث پیچھے کتاب العلم میں موصولاً گزر چکی ہے پس ثابت ہوا کہ ترجمہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے شہادت پر قیاس کیا ہے ۔ یہاں سے ان لوگوں کا جواب ہو گیا جو کہتے ہیں امام بخاری نے بعض الناس کے لفظ سے امام ابو حنیفہ کی تحقیر کی ہے کیونکہ بعض الناس کوئی تحقیر کا کلمہ نہیں اگر تحقیر کا کلمہ ہوتا تو امام شافعی کے لیے کیونکر استعمال کرتے ۔