‌صحيح البخاري - حدیث 7187

كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ مَنْ لَمْ يَكْتَرِثْ بِطَعْنِ مَنْ لاَ يَعْلَمُ فِي الأُمَرَاءِ حَدِيثًا صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْثًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ فَطُعِنَ فِي إِمَارَتِهِ وَقَالَ إِنْ تَطْعَنُوا فِي إِمَارَتِهِ فَقَدْ كُنْتُمْ تَطْعَنُونَ فِي إِمَارَةِ أَبِيهِ مِنْ قَبْلِهِ وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لِلْإِمْرَةِ وَإِنْ كَانَ لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ وَإِنَّ هَذَا لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ بَعْدَهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7187

کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں باب : کسی شخص کی سرداری میں نا فرمانی سے لوگ طعنہ دیں اور حاکم ان کے طعنہ کی پرواہ نہ کرے ہم سے اسماعیل نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے عبد العزیز بن مسلم نے بیان کیا ، ان سے عبد اللہ بن دینار نے بیان کیا‘انہوں نے کہا کہ میں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اس کا امیر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بنا یا لیکن ان کی سرداری پر طعن کیا گیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اگر آج تم ان کی امارت کو مطعون قرار دیتے ہو تو تم نے اس سے پہلے اس کے والد ( زید رضی اللہ عنہ ) کی امارت کو بھی مطعون قرار دیا تھا اور خدا کی قسم وہ امارت کے لیے سزا وار تھے اور وہ مجھے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عزیز تھے اور یہ ( اسامہ رضی اللہ عنہ ) ان کے بعد سب سے زیادہ مجھے عزیز ہے ۔
تشریح : کہ بوڑھے بوڑھے لوگ ہوتے ہوئے آپ نے ایک چھوکرے کو سردار بنا یا ۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فعل مصلحت اور دور اندیشی سے خالی نہ تھا ۔ ہوا یہ تھا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کے والد زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ان رومی کافروں کے ہاتھ سے شہید ہوئے تھے۔ آپ نے ان کے بیٹے کو اس لیے سردار بنا یا تھا کہ وہ اپنے باپ کے مارنے والوں کو بڑے جوش کے ساتھ لڑیں گے ۔ دوسرے یہ کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کے دل کو ذرا تسلی ہوگی ۔ اسامہ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت زید رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹا بنا یا تھاجب وہ غزوہ موتہ میں شہید ہوئے تو ایک اکلوتا بیٹا اسامہ رضی اللہ عنہ چھوڑ گئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بے انتہا چاہتے تھے ۔ یہاں تک کہ ایک ران پر ان کو بٹھاتے اور ایک ران پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اور فرماتے یا اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت کر اس حدیث کے لانے سے یہاں یہ غرض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے لغوطعن وتشنیع پر کچھ خیال نہیں کیا اور اسامہ رضی اللہ عنہ کو سرداری سے علیحدہ نہیں کیا۔ اب یہ اعتراض نہ ہوگا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کی بے اصل شکایات پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو کیوں معزول کردیا کیونکہ ہر زمانہ اور ہر موقع کی مصلحت جدا گانہ ہوتی ہے گو سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیں تو بے اصل نکلیں مگر کسی فتنے یا فساد کے ڈر سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کا علیحدہ ہی کردینا قرین مصلحت نظر آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے کسی فتنہ اور فساد کا اندیشہ نہ تھا ۔ بہر حال یہ امر امام کی رائے کی طرف مفوض ہے ۔ کہ بوڑھے بوڑھے لوگ ہوتے ہوئے آپ نے ایک چھوکرے کو سردار بنا یا ۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فعل مصلحت اور دور اندیشی سے خالی نہ تھا ۔ ہوا یہ تھا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کے والد زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ان رومی کافروں کے ہاتھ سے شہید ہوئے تھے۔ آپ نے ان کے بیٹے کو اس لیے سردار بنا یا تھا کہ وہ اپنے باپ کے مارنے والوں کو بڑے جوش کے ساتھ لڑیں گے ۔ دوسرے یہ کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کے دل کو ذرا تسلی ہوگی ۔ اسامہ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت زید رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹا بنا یا تھاجب وہ غزوہ موتہ میں شہید ہوئے تو ایک اکلوتا بیٹا اسامہ رضی اللہ عنہ چھوڑ گئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بے انتہا چاہتے تھے ۔ یہاں تک کہ ایک ران پر ان کو بٹھاتے اور ایک ران پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اور فرماتے یا اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت کر اس حدیث کے لانے سے یہاں یہ غرض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے لغوطعن وتشنیع پر کچھ خیال نہیں کیا اور اسامہ رضی اللہ عنہ کو سرداری سے علیحدہ نہیں کیا۔ اب یہ اعتراض نہ ہوگا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کی بے اصل شکایات پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو کیوں معزول کردیا کیونکہ ہر زمانہ اور ہر موقع کی مصلحت جدا گانہ ہوتی ہے گو سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیں تو بے اصل نکلیں مگر کسی فتنے یا فساد کے ڈر سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کا علیحدہ ہی کردینا قرین مصلحت نظر آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے کسی فتنہ اور فساد کا اندیشہ نہ تھا ۔ بہر حال یہ امر امام کی رائے کی طرف مفوض ہے ۔