‌صحيح البخاري - حدیث 7182

كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ مَنْ قُضِيَ لَهُ بِحَقِّ أَخِيهِ فَلاَ يَأْخُذْهُ، فَإِنَّ قَضَاءَ الحَاكِمِ لاَ يُحِلُّ حَرَامًا وَلاَ يُحَرِّمُ حَلاَلًا صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا قَالَتْ كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَى أَخِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ مِنِّي فَاقْبِضْهُ إِلَيْكَ فَلَمَّا كَانَ عَامُ الْفَتْحِ أَخَذَهُ سَعْدٌ فَقَالَ ابْنُ أَخِي قَدْ كَانَ عَهِدَ إِلَيَّ فِيهِ فَقَامَ إِلَيْهِ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ فَقَالَ أَخِي وَابْنُ وَلِيدَةِ أَبِي وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ فَتَسَاوَقَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ سَعْدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ ابْنُ أَخِي كَانَ عَهِدَ إِلَيَّ فِيهِ وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ أَخِي وَابْنُ وَلِيدَةِ أَبِي وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ ثُمَّ قَالَ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ احْتَجِبِي مِنْهُ لِمَا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ فَمَا رَآهَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ تَعَالَى

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7182

کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں باب : اگر کسی شخص کو حاکم دوسرے مسلمان بھائی کا مال ناحق دلادے تو اس کو نہ لے کیوں کہ حاکم کے فیصلہ سے نہ حرام حلال ہوسکتا ہے نہ حلال حرام ہوسکتا ہے ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو یہ وصیت کی تھی کہ زمعہ کی لونڈی ( کا لڑکا ) میرا ہے ۔ تم اسے اپنی پروش میں لے لینا ۔ چنانچہ فتح مکہ کے دن سعد رضی اللہ عنہ نے اسے لے لیا اور کہا کہ یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور مجھے اس کے بارے میں انہوں نے وصیت کی تھی ، پھر عبد بن زمعہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ یہ میرا بھائی ، میرے والد کی لونڈی کا لڑکا ہے اور انہیں کے فراش پر پیدا ہوا ۔ چنانچہ یہ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے ۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میرے بھائی کا لڑکا ہے ، انہوں نے مجھے اس کی وصیت کی تھی اور عبد بن زمعہ نے کہا کہ میرا بھائی ہے ، میرے والد کی لونڈی کا لڑکا ہے اور انہیں کے فراش پر پیدا ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبد بن زمعہ! یہ تمہارا ہے ، پھر آپ نے فرمایا کہ بچہ فراش کا ہوتا ہے اور زانی کے لیے پتھر ہے ۔ پھر آپ نے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اس لڑکے سے پردہ کیا کرو کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کی عتبہ سے مشابہت دیکھ لی تھی ۔ چنانچہ اس نے سودہ رضی اللہ عنہا کو موت تک نہیں دیکھا۔
تشریح : سبحان اللہ ! امام بخاری رحمہ اللہ کے باریک فہم پر آفریں ۔ انہوں نے اس حدیث سے باب کا مطلب یوں ثابت کیا کہ اگر قاضی کی قضا ظاہر اور باطن یعنی عند الناس وعند اللہ دونوں طرح نافذ ہو جاتی جیسے حنفیہ کہتے ہیں تو جب آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بچہ زمعہ کا بیٹا ہے تو سودہ کا بھائی ہو جاتا ہے اور اس وقت آپ سودہ رضی اللہ عنہ کو اس سے پردہ کرنے کا کیوں حکم دیتے ۔ جب پردے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ قضائے قاضی سے باطنی اور حقیقی امر نہیں بدلتا گو ظاہر میں وہ سودہ کا بھائی ٹھہرا مگر حقیقتاًعند اللہ بھائی نہ ٹھہرا ‘اسی وجہ سے پردہ کا حکم دیا ۔ سبحان اللہ ! امام بخاری رحمہ اللہ کے باریک فہم پر آفریں ۔ انہوں نے اس حدیث سے باب کا مطلب یوں ثابت کیا کہ اگر قاضی کی قضا ظاہر اور باطن یعنی عند الناس وعند اللہ دونوں طرح نافذ ہو جاتی جیسے حنفیہ کہتے ہیں تو جب آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بچہ زمعہ کا بیٹا ہے تو سودہ کا بھائی ہو جاتا ہے اور اس وقت آپ سودہ رضی اللہ عنہ کو اس سے پردہ کرنے کا کیوں حکم دیتے ۔ جب پردے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ قضائے قاضی سے باطنی اور حقیقی امر نہیں بدلتا گو ظاہر میں وہ سودہ کا بھائی ٹھہرا مگر حقیقتاًعند اللہ بھائی نہ ٹھہرا ‘اسی وجہ سے پردہ کا حکم دیا ۔