كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ اسْتِقْضَاءِ المَوَالِي وَاسْتِعْمَالِهِمْ صحيح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ أَنَّ نَافِعًا أَخْبَرَهُ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ قَالَ كَانَ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ يَؤُمُّ الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ وَأَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَأَبُو سَلَمَةَ وَزَيْدٌ وَعَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
باب : آزاد شدہ غلام کو قاضی یا حاکم بنانا
ہم سے عثمان بن صالح نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو ابن جریج نے خبردی، انہیں نافع نے خبردی، انہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبردی، کہا کہ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے ( آزاد کردہ غلام) سالم مہاجر اولین کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے صحابہص مسجد قبا میں امامت کیا کرتے تھے۔ ان اصحاب میں ابوبکر، عمر، ابوسلمہ، زید اور عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہم بھی ہوتے تھے۔
تشریح :
اس کی وجہ یہ تھی کہ سالم قرآن کے بڑے قاری تھے جب کہ دوسری حدیث میں ہے قرآن چار شخصوں سے سیکھو۔ عبداللہ بن مسعود اور سالم مولیٰ، ابوحذیفہ اور ابی بن کعب اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم سے۔ ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ایک بار میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے میں دیر لگائی۔ آپ نے وجہ پوچھی۔ میں نے کہا ایک قاری کو نہایت عمدہ طور سے میں نے قرآن پڑھتے سنا۔ یہ سنتے ہی آپ چادر لے کر باہر نکلے دیکھا تو وہ سالم مولیٰ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسا شخص بنایا۔ سالم رضی اللہ عنہ امامت کررہے تھے جو آزاد کردہ غلام تھے، اسی سے غلام کو حاکم یا قاضی بنانا ثابت ہوا، بشرطیکہ وہ اہلیت رکھتا ہو۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ سالم قرآن کے بڑے قاری تھے جب کہ دوسری حدیث میں ہے قرآن چار شخصوں سے سیکھو۔ عبداللہ بن مسعود اور سالم مولیٰ، ابوحذیفہ اور ابی بن کعب اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم سے۔ ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ایک بار میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے میں دیر لگائی۔ آپ نے وجہ پوچھی۔ میں نے کہا ایک قاری کو نہایت عمدہ طور سے میں نے قرآن پڑھتے سنا۔ یہ سنتے ہی آپ چادر لے کر باہر نکلے دیکھا تو وہ سالم مولیٰ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسا شخص بنایا۔ سالم رضی اللہ عنہ امامت کررہے تھے جو آزاد کردہ غلام تھے، اسی سے غلام کو حاکم یا قاضی بنانا ثابت ہوا، بشرطیکہ وہ اہلیت رکھتا ہو۔