كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ رِزْقِ الحُكَّامِ وَالعَامِلِينَ عَلَيْهَا صحيح وَعَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي العَطَاءَ، فَأَقُولُ أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا، فَقُلْتُ: أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُذْهُ، فَتَمَوَّلْهُ، وَتَصَدَّقْ بِهِ، فَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا المَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلاَ سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَمَالاَ فَلاَ تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ»
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
باب : حکام اور حکومت کے عاملوں کا تنخواہ لینا
اور زہری سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عطا کرتے تھے تو میں کہتا کہ آپ اسے دے دیں جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو، پھر آپ نے مجھے ایک مرتبہ مال دیا اور میں نے کہا کہ آپ اسے ایسے شخص کو دے دیں جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لے لو اور اس کے مالک بننے کے بعد اس کا صدقہ کردو۔ یہ مال جب تمہیں اس طرح ملے کہ تم اس کے خواہشمند نہ ہو اور نہ اسے تم نے مانگا ہو تو اسے لے لیا کرو اور جو اس طرح نہ ملے اس کے پیچھے نہ پڑا کرو۔
تشریح :
سبحان اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بات بتلائی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی نہیں سوجھی یعنی اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس مال کو نہ لیتے صرف واپس کردیتے تو اس میں اتنا فائدہ نہ تھا جتنا لے لینے میں اور پھر اللہ کی راہ میں خیرات کرنے میں۔ کیوں کہ صدقہ کا ثواب بھی اس میں حاصل ہوا۔ محققین فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ مال کے رد کرنے میں بھی نفس کو ایک غرور حاصل ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو اسے مال لے لینا چاہئے پھر لے کر خیرات کردے یہ نہ لینے سے افضل ہوگا۔ آج کل دینی خدمات کرنے والوں کے لیے بھی یہی بہتر ہے کہ تنخواہ بقدر کفالت لیں، غنی ہوں تو نہ لیں یا لے کر خیرات کردیں۔
سبحان اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بات بتلائی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی نہیں سوجھی یعنی اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس مال کو نہ لیتے صرف واپس کردیتے تو اس میں اتنا فائدہ نہ تھا جتنا لے لینے میں اور پھر اللہ کی راہ میں خیرات کرنے میں۔ کیوں کہ صدقہ کا ثواب بھی اس میں حاصل ہوا۔ محققین فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ مال کے رد کرنے میں بھی نفس کو ایک غرور حاصل ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو اسے مال لے لینا چاہئے پھر لے کر خیرات کردے یہ نہ لینے سے افضل ہوگا۔ آج کل دینی خدمات کرنے والوں کے لیے بھی یہی بہتر ہے کہ تنخواہ بقدر کفالت لیں، غنی ہوں تو نہ لیں یا لے کر خیرات کردیں۔