كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الحِرْصِ عَلَى الإِمَارَةِ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّكُمْ سَتَحْرِصُونَ عَلَى الْإِمَارَةِ وَسَتَكُونُ نَدَامَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَنِعْمَ الْمُرْضِعَةُ وَبِئْسَتْ الْفَاطِمَةُ وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُمْرَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَوْلَهُ
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
باب : حکومت اور سرداری کی حرص کرنا منع ہے
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم حکومت کا لالچ کروگے اور یہ قیامت کے دن تمہارے لیے باعث ندامت ہوگی۔ پس کیا ہی بہتر ہے دودھ پلانے والی اور کیا ہی بری ہے دودھ چھڑانے والی۔ اور محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن حمران نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سعید المقبری نے، ان سے عمر بن حکم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنا قول ( موقوفاً) نقل کیا۔
تشریح :
تو اس طریق میں دو باتیںاگلے طریق کے خلاف ہیں ایک تو سعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں عمر بن حکم کا واسطہ ہونا، دوسرے حدیث کو موقوفاً نقل کرنا۔
سبحان اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا عمدہ مثال دی ہے۔ آدمی کو حکومت اور سرداری ملتے وقت بڑی لذت ہوتی ہے، خوب روپے کماتا ہے، مزے اڑاتا ہے لیکن اس کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ سدا قائم رہنے والی چیز نہیں، ایک دن چھن جائے گی تو جتنا مزہ اٹھایا ہے وہ سب کرکرا ہوجائے گا اور اس رنج کے سامنے جو سرداری اور حکومت جاتے وقت ہوگا یہ خوشی کوئی چیز نہیں ہے۔ عاقل کو چاہئے کہ جس کام کے انجام میں رنج ہو اس کو تھوڑی سی لذت کی وجہ سے ہرگز اختیار نہ کرے۔ عاقل وہی کام کرتا ہے جس میں رنج اور دکھ کا نام نہ ہو، نری لذت ہی لذت ہو گویہ لذت مقدار میں تھوڑی ہو لیکن اس لذت سے بدرجہا بہتر ہے جس کے بعد رنج سہنا پڑے۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ دنیا کی حکومت پر سرداری اور بادشاہت درحقیقت ایک عذاب الیم ہے۔ اسی لیے عقل مند بزرگ اس سے ہمیشہ بھاگتے رہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے مارکھائی، قید میں رہے مگر حکومت قبول نہ کی۔ دوسری حدیث میں ہے جو شخص عدالت کا حاکم یعنی قاضی ( جج ) بنایا گیا وہ بن چھری ذبح کیاگیا۔
تو اس طریق میں دو باتیںاگلے طریق کے خلاف ہیں ایک تو سعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں عمر بن حکم کا واسطہ ہونا، دوسرے حدیث کو موقوفاً نقل کرنا۔
سبحان اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا عمدہ مثال دی ہے۔ آدمی کو حکومت اور سرداری ملتے وقت بڑی لذت ہوتی ہے، خوب روپے کماتا ہے، مزے اڑاتا ہے لیکن اس کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ سدا قائم رہنے والی چیز نہیں، ایک دن چھن جائے گی تو جتنا مزہ اٹھایا ہے وہ سب کرکرا ہوجائے گا اور اس رنج کے سامنے جو سرداری اور حکومت جاتے وقت ہوگا یہ خوشی کوئی چیز نہیں ہے۔ عاقل کو چاہئے کہ جس کام کے انجام میں رنج ہو اس کو تھوڑی سی لذت کی وجہ سے ہرگز اختیار نہ کرے۔ عاقل وہی کام کرتا ہے جس میں رنج اور دکھ کا نام نہ ہو، نری لذت ہی لذت ہو گویہ لذت مقدار میں تھوڑی ہو لیکن اس لذت سے بدرجہا بہتر ہے جس کے بعد رنج سہنا پڑے۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ دنیا کی حکومت پر سرداری اور بادشاہت درحقیقت ایک عذاب الیم ہے۔ اسی لیے عقل مند بزرگ اس سے ہمیشہ بھاگتے رہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے مارکھائی، قید میں رہے مگر حکومت قبول نہ کی۔ دوسری حدیث میں ہے جو شخص عدالت کا حاکم یعنی قاضی ( جج ) بنایا گیا وہ بن چھری ذبح کیاگیا۔