كِتَابُ الأَذَانِ بَابٌ: هَلْ يَأْخُذُ الإِمَامُ إِذَا شَكَّ بِقَوْلِ النَّاسِ؟ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ أَبِي تَمِيمَةَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنَ اثْنَتَيْنِ، فَقَالَ لَهُ ذُو اليَدَيْنِ: أَقَصُرَتِ الصَّلاَةُ، أَمْ نَسِيتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَصَدَقَ ذُو اليَدَيْنِ» فَقَالَ النَّاسُ: نَعَمْ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى اثْنَتَيْنِ أُخْرَيَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ كَبَّرَ، فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
باب: اگر امام کو شک ہو جائے
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے حضرت امام مالک بن انس سے بیان کیا، انہوں نے ایوب بن ابی تمیمہ سختیانی سے، انہوں نے محمد بن سیرین سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ظہر کی نماز میں ) دو رکعت پڑھ کر نماز ختم کر دی تو آپ سے ذوالیدین نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا نماز کم ہو گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اور لوگوں کی طرف دیکھ کر ) پوچھا کیا ذوالیدین صحیح کہتے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں! پھر آپ اٹھے اور دوسری دو رکعتیں بھی پڑھیں۔ پھر سلام پھیرا۔ پھر تکبیر کہی اور سجدہ کیا پہلے کی طرح یا اس سے کچھ لمبا سجدہ۔
تشریح :
یہ باب لاکر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شافعیہ کا رد کیا ہے جو کہتے ہیں کہ امام مقتدیوں کی بات نہ سنے، بعض نے کہا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف اس حالت میں ہے جب امام کو خود شک ہو، لیکن اگر امام کو ایک امر کا یقین ہو تو بالاتفاق مقتدیوں کی بات نہ سننا چاہئے۔ ذو الیدین کا اصلی نام خرباق تھا۔ ان کے دونوں ہاتھ لمبے لمبے تھے اس لیے لوگ ان کو ذو الیدین کہنے لگے۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ درجہ یقین حاصل کرنے کے لیے اور لوگوں سے بھی شہادت لی جاسکتی ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ امر حق کا اظہار ایک ادنی آدمی بھی کرسکتا ہے۔
یہ باب لاکر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شافعیہ کا رد کیا ہے جو کہتے ہیں کہ امام مقتدیوں کی بات نہ سنے، بعض نے کہا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف اس حالت میں ہے جب امام کو خود شک ہو، لیکن اگر امام کو ایک امر کا یقین ہو تو بالاتفاق مقتدیوں کی بات نہ سننا چاہئے۔ ذو الیدین کا اصلی نام خرباق تھا۔ ان کے دونوں ہاتھ لمبے لمبے تھے اس لیے لوگ ان کو ذو الیدین کہنے لگے۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ درجہ یقین حاصل کرنے کے لیے اور لوگوں سے بھی شہادت لی جاسکتی ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ امر حق کا اظہار ایک ادنی آدمی بھی کرسکتا ہے۔