‌صحيح البخاري - حدیث 7109

كِتَابُ الفِتَنِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺلِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ: «إِنَّ ابْنِي هَذَا لَسَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ المُسْلِمِينَ» صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ أَبُو مُوسَى وَلَقِيتُهُ بِالْكُوفَةِ وَجَاءَ إِلَى ابْنِ شُبْرُمَةَ فَقَالَ أَدْخِلْنِي عَلَى عِيسَى فَأَعِظَهُ فَكَأَنَّ ابْنَ شُبْرُمَةَ خَافَ عَلَيْهِ فَلَمْ يَفْعَلْ قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ قَالَ لَمَّا سَارَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالْكَتَائِبِ قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ لِمُعَاوِيَةَ أَرَى كَتِيبَةً لَا تُوَلِّي حَتَّى تُدْبِرَ أُخْرَاهَا قَالَ مُعَاوِيَةُ مَنْ لِذَرَارِيِّ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ أَنَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَمُرَةَ نَلْقَاهُ فَنَقُولُ لَهُ الصُّلْحَ قَالَ الْحَسَنُ وَلَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ قَالَ بَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ جَاءَ الْحَسَنُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7109

کتاب: فتنوں کے بیان میں باب : نبی کریم ﷺکا حضرت حسن ؓ کے متعلق فرمانا میرا یہ بیٹا سردار ہے اور یقینا اللہ پاک اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا۔ ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل ابوموسیٰ نے بیان کیا اور میری ان سے ملاقات کوفہ میں ہوئی تھی۔ وہ ابن شبرمہ کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے عیسیٰ( منصور کے بھائی اور کوفہ کے والی) کے پاس لے چلو تاکہ میں اسے نصیحت کروں۔ غالباً ابن شبرمہ نے خوف محسوس کیا اور نہیں لے گئے۔ انہوں نے اس پر بیان کیا کہ ہم سے حسن بصری نے بیان کیا کہ جب حسن بن علی امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کے خلاف لشکر لے کر نکلے تو عمروبن عاص نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہما سے کہا کہ میں ایسا لشکر دیکھتا ہوں جو اس وقت تک واپس نہیں جاسکتا جب تک اپنے مقابل کو بھگا نہ لے۔ پھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مسلمانوں کے اہل و عیال کا کون کفیل ہوگا؟ جواب دیا کہ میں۔ پھر عبداللہ بن عامر اور عبدالرحمن بن سمرہ نے کہا کہ ہم امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے ملتے ہیں ( اور ان سے صلح کے لیے کہتے ہیں) حسن بصری نے کہا کہ میں نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ حسن رضی اللہ عنہ آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرادے گا۔
تشریح : حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے اس اقدام سے مسلمانوں میں ایک بڑی جنگ ٹل گئی جبکہ حالات حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لیے سازگار تھے مگر آپ نے اس خانہ جنگی کو حسن تدبر سے ختم کردیا۔ اللہ پاک آپ کی روح پاک پر ہزار ہا ہزار رحمت نازل فرمائے۔ اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی سچی ہوگئی جو اس حدیث میں مذکور ہے۔ اللہم صل علی محمد و علیٰ آلہ و اصحابہ اجمعین۔ پھر یہ دونوں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور صلح کی تجویز ٹھہر گئی۔ اور انہوں نے صلح کرلی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے مقدمہ لشکر کے سردار قیس بن سعد تھے۔ یہ دونوں لشکر کوفہ کے قریب ایک دوسرے سے ملے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ان لشکروں کی تعداد پر نظر ڈال کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو پکارا۔ فرمایا میں نے اپنے پروردگار پاس جو ملنے والا ہے اس کو اختیار کیا اگر خلافت اللہ نے تمہارے لیے لکھی ہے تو مجھ کو ملنے والی نہیں اور اگر میرے لیے لکھی ہے تو میں نے تم کو دے ڈالی۔ اس وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر والوں نے تکبیر کہی اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی ان ابنی ہٰذا سید ....اخیر تک پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خطبہ سنایا اور خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کردی، اس شرط پر کہ وہ اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ پر عمل کرتے رہیں۔ لوگ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو کہنے لگے یا عارالمسلمین یعنی مسلمانوں کے ننگ۔ آپ نے جواب دیاالعار خیر من النار۔ جو صلح نامہ قرار پایا تھا اس میں یہ بھی شرط تھی کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد پھر خلافت حضرت حسن کو ملے گی۔ محمد بن قدامہ نے بہ سند صحیح اور ابن ابی خیثمہ نے ایسا ہی روایت کیا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اسی شرط پر بیعت کی تھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے اس اقدام سے مسلمانوں میں ایک بڑی جنگ ٹل گئی جبکہ حالات حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لیے سازگار تھے مگر آپ نے اس خانہ جنگی کو حسن تدبر سے ختم کردیا۔ اللہ پاک آپ کی روح پاک پر ہزار ہا ہزار رحمت نازل فرمائے۔ اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی سچی ہوگئی جو اس حدیث میں مذکور ہے۔ اللہم صل علی محمد و علیٰ آلہ و اصحابہ اجمعین۔ پھر یہ دونوں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور صلح کی تجویز ٹھہر گئی۔ اور انہوں نے صلح کرلی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے مقدمہ لشکر کے سردار قیس بن سعد تھے۔ یہ دونوں لشکر کوفہ کے قریب ایک دوسرے سے ملے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ان لشکروں کی تعداد پر نظر ڈال کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو پکارا۔ فرمایا میں نے اپنے پروردگار پاس جو ملنے والا ہے اس کو اختیار کیا اگر خلافت اللہ نے تمہارے لیے لکھی ہے تو مجھ کو ملنے والی نہیں اور اگر میرے لیے لکھی ہے تو میں نے تم کو دے ڈالی۔ اس وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر والوں نے تکبیر کہی اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی ان ابنی ہٰذا سید ....اخیر تک پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خطبہ سنایا اور خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کردی، اس شرط پر کہ وہ اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ پر عمل کرتے رہیں۔ لوگ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو کہنے لگے یا عارالمسلمین یعنی مسلمانوں کے ننگ۔ آپ نے جواب دیاالعار خیر من النار۔ جو صلح نامہ قرار پایا تھا اس میں یہ بھی شرط تھی کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد پھر خلافت حضرت حسن کو ملے گی۔ محمد بن قدامہ نے بہ سند صحیح اور ابن ابی خیثمہ نے ایسا ہی روایت کیا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اسی شرط پر بیعت کی تھی۔