كِتَابُ الفِتَنِ بَابُ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ حَدَّثَنَا أَبُو مَرْيَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ الْأَسَدِيُّ قَالَ لَمَّا سَارَ طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَعَائِشَةُ إِلَى الْبَصْرَةِ بَعَثَ عَلِيٌّ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ وَحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ فَقَدِمَا عَلَيْنَا الْكُوفَةَ فَصَعِدَا الْمِنْبَرَ فَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَوْقَ الْمِنْبَرِ فِي أَعْلَاهُ وَقَامَ عَمَّارٌ أَسْفَلَ مِنْ الْحَسَنِ فَاجْتَمَعْنَا إِلَيْهِ فَسَمِعْتُ عَمَّارًا يَقُولُ إِنَّ عَائِشَةَ قَدْ سَارَتْ إِلَى الْبَصْرَةِ وَ وَاللَّهِ إِنَّهَا لَزَوْجَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَكِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ابْتَلَاكُمْ لِيَعْلَمَ إِيَّاهُ تُطِيعُونَ أَمْ هِيَ
کتاب: فتنوں کے بیان میں
باب
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوبکر بن عیاش نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوحصین نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابومریم عبداللہ بن زیاد الاسدی نے بیان کیا کہ جب طلحہ، زبیر اور عائشہ رضی اللہ عنہم بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو علی رضی اللہ عنہ نے عمار بن یاسر اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بھیجا۔ یہ دونوں بزرگ ہمارے پاس کوفہ آئے اور منبر پر چڑھے۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہما منبر کے اوپر سب سے اونچی جگہ تھے اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما ان سے نیچے تھے۔ پھر ہم ان کے پاس جمع ہوگئے اور میں نے عمار رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا بصرہ گئی ہیں اور خدا کی قسم وہ دنیا و آخرت میں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی ہیں لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہیں آزمایا ہے تاکہ جان لے کہ تم اس اللہ کی اطاعت کرتے ہو یا عائشہ رضی اللہ عنہا کی۔
تشریح :
عمار رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ برحق ہیں اور خلیفہ کی اطاعت خدا اور رسول کی اطاعت ہے۔ اسماعیلی کی روایت میں یوں ہے کہ عمار رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے لڑنے کے لیے برانگیختہ کیا اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے یہ پیغام سنایا ” میں لوگوں کو خدا کی یاد دلا کر یہ کہتا ہوں وہ بھاگیں نہیں اگر میں مظلوم ہوں تو اللہ میری مدد کرے گا اور اگر میں ظالم ہوں تو اللہ مجھ کو تباہ کرے گا۔ خدا کی قسم طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما نے خود مجھ سے بیعت کی پھر بیعت توڑ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ لڑنے کے لیے نکلے۔ عبداللہ بن بدیل کہتے ہیں جنگ شروع ہوتے وقت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کجاوے کے پاس آیا، میں نے کہا ام المؤمنین جب عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو میں آپ کے پاس آیا، آپ نے خود فرمایا کہ اب علی بن ابی طالب کے ساتھ رہنا اور پھر اب آپ خود اس سے لڑنا چاہتی ہیں یہ کیا بات ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کچھ جواب نہ دیا۔ آخر ان کے اونٹ کی کونچیں کاٹی گئیں پھر میں اور ان کے بھائی محمد بن ابی بکر دونوں اترے اور کجاوے کو اٹھاکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس لائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو گھر میں زنانہ میں بھیج دیا۔
عمار رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ برحق ہیں اور خلیفہ کی اطاعت خدا اور رسول کی اطاعت ہے۔ اسماعیلی کی روایت میں یوں ہے کہ عمار رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے لڑنے کے لیے برانگیختہ کیا اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے یہ پیغام سنایا ” میں لوگوں کو خدا کی یاد دلا کر یہ کہتا ہوں وہ بھاگیں نہیں اگر میں مظلوم ہوں تو اللہ میری مدد کرے گا اور اگر میں ظالم ہوں تو اللہ مجھ کو تباہ کرے گا۔ خدا کی قسم طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما نے خود مجھ سے بیعت کی پھر بیعت توڑ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ لڑنے کے لیے نکلے۔ عبداللہ بن بدیل کہتے ہیں جنگ شروع ہوتے وقت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کجاوے کے پاس آیا، میں نے کہا ام المؤمنین جب عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو میں آپ کے پاس آیا، آپ نے خود فرمایا کہ اب علی بن ابی طالب کے ساتھ رہنا اور پھر اب آپ خود اس سے لڑنا چاہتی ہیں یہ کیا بات ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کچھ جواب نہ دیا۔ آخر ان کے اونٹ کی کونچیں کاٹی گئیں پھر میں اور ان کے بھائی محمد بن ابی بکر دونوں اترے اور کجاوے کو اٹھاکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس لائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو گھر میں زنانہ میں بھیج دیا۔