‌صحيح البخاري - حدیث 7096

كِتَابُ الفِتَنِ بَابُ الفِتْنَةِ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ البَحْرِ صحيح حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنَا شَقِيقٌ سَمِعْتُ حُذَيْفَةَ يَقُولُ بَيْنَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ عُمَرَ إِذْ قَالَ أَيُّكُمْ يَحْفَظُ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ قَالَ فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصَّدَقَةُ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنْ الْمُنْكَرِ قَالَ لَيْسَ عَنْ هَذَا أَسْأَلُكَ وَلَكِنْ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ قَالَ لَيْسَ عَلَيْكَ مِنْهَا بَأْسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا قَالَ عُمَرُ أَيُكْسَرُ الْبَابُ أَمْ يُفْتَحُ قَالَ بَلْ يُكْسَرُ قَالَ عُمَرُ إِذًا لَا يُغْلَقَ أَبَدًا قُلْتُ أَجَلْ قُلْنَا لِحُذَيْفَةَ أَكَانَ عُمَرُ يَعْلَمُ الْبَابَ قَالَ نَعَمْ كَمَا يَعْلَمُ أَنَّ دُونَ غَدٍ لَيْلَةً وَذَلِكَ أَنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَهُ مَنْ الْبَابُ فَأَمَرْنَا مَسْرُوقًا فَسَأَلَهُ فَقَالَ مَنْ الْبَابُ قَالَ عُمَرُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7096

کتاب: فتنوں کے بیان میں باب : اس فتنے کا بیان جو فتنہ سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارکر اٹھے گا ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق نے بیان کیا، انہوں نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے پوچھا تم میں سے کسے فتنہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انسان کا فتنہ( آزمائش) اس کی بیوی، اس کے مال، اس کے بچے اور پڑوسی کے معاملات میں ہوتا ہے جس کا کفارہ نماز، صدقہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کردیتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا بلکہ اس فتنہ کے بارے میں پوچھتا ہوں جو دریا کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ امیرالمؤمنین تم پر اس کا کوئی خطرہ نہیں اس کے اور تمہارے درمیان ایک بند دروازہ رکاوٹ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا وہ دروازہ توڑدیا جائے گا یا کھولا جائے گا؟ بیان کیا توڑ دیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر تو وہ کبھی بند نہ ہوسکے گا۔ میں نے کہا جی ہاں۔ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا عمرص اس دروازہ کے متعلق جانتے تھے؟ فرمایا کہ ہاں، جس طرح میں جانتا ہوں کہ کل سے پہلے رات آئے گی کیو ںکہ میں نے ایسی بات بیان کی تھی جو بے بنیاد نہیں تھی۔ ہمیں ان سے یہ پوچھتے ہوئے ڈر لگا کہ وہ دروازہ کون تھے۔ چنانچہ ہم نے مسروق سے کہا( کہ وہ پوچھیں) جب انہوں نے پوچھا کہ وہ دروازہ کون تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ دروازہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔
تشریح : توڑے جانے سے ان کی شہادت مراد ہے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ سبحان اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذات مسلمانوں کی پشت پناہ تمام آفتوںاور بلاؤں کی روک تھی۔ جب سے یہ ذات مقدس اٹھ گئی مسلمان مصیبت میں مبتلا ہوگئے۔ آئے دن ایک ایک آفت ایک ایک مصیبت۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے تو ان جاہل درویشوں اور صوفیوں کی جو معاذ اللہ ہر چیز کو خدا اور عابد اور معبود کو ایک سمجھتے ہیں، پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کو جھٹلاتے ہیں اور ان بدعتی گورپرستوں اور پیر پرستوں اور ان رافضیوں اور خارجیوں، دشمنان صحابہ و اہل بیت کی کچھ دال گلنے پانی کبھی نہیں ہرگز نہیں۔ یا اللہ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح اور ایک شخص کو مسلمانوں میں بھیج دے اور جو اسلام کا جھنڈاازسرنوبلند کرے اور دشمنان اسلام کو سرنگوں کردے۔ آمین یا رب العالمین۔ ( وحیدی ) توڑے جانے سے ان کی شہادت مراد ہے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ سبحان اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذات مسلمانوں کی پشت پناہ تمام آفتوںاور بلاؤں کی روک تھی۔ جب سے یہ ذات مقدس اٹھ گئی مسلمان مصیبت میں مبتلا ہوگئے۔ آئے دن ایک ایک آفت ایک ایک مصیبت۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے تو ان جاہل درویشوں اور صوفیوں کی جو معاذ اللہ ہر چیز کو خدا اور عابد اور معبود کو ایک سمجھتے ہیں، پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کو جھٹلاتے ہیں اور ان بدعتی گورپرستوں اور پیر پرستوں اور ان رافضیوں اور خارجیوں، دشمنان صحابہ و اہل بیت کی کچھ دال گلنے پانی کبھی نہیں ہرگز نہیں۔ یا اللہ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح اور ایک شخص کو مسلمانوں میں بھیج دے اور جو اسلام کا جھنڈاازسرنوبلند کرے اور دشمنان اسلام کو سرنگوں کردے۔ آمین یا رب العالمین۔ ( وحیدی )