‌صحيح البخاري - حدیث 7094

كِتَابُ الفِتَنِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «الفِتْنَةُ مِنْ قِبَلِ المَشْرِقِ» صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَأْمِنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَفِي نَجْدِنَا قَالَ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَأْمِنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَفِي نَجْدِنَا فَأَظُنُّهُ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ هُنَاكَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ وَبِهَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7094

کتاب: فتنوں کے بیان میں باب : نبی کریم ﷺ کا فرمانا کہ فتنہ مشرق کی طرف سے اٹھے گا ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ازہر بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن عون نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا، ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ہمارے ملک شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کیا اور ہمارے نجد میں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے اللہ ہمارے شام میں برکت دے، ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں؟ میرا گمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ طلوع ہوگا۔
تشریح : یعنی دجال جو مشرق کے ملک سے آئے گا۔ اسی طرف سے یاجوج ماجوج آئیں گے نجد سے مراد وہ ملک ہے عراق کا جو بلندی پر واقع ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا نہیں فرمائی کیوں کہ ادھر سے بڑی بڑی آفتوں کا ظہور ہونے والا تھا۔ حضرت حسین بھی اسی سرزمین میں شہید ہوئے۔ کوفہ، بابل وغیرہ یہ سب نجد میں داخل ہیں۔ بعضے بے وقوفوں نے نجد کے فتنے سے محمد بن عبدالوہاب کا نکلنا مراد رکھا ہے، ان کو یہ معلوم نہیں کہ محمد بن عبدالوہاب تو مسلمان اور موحد تھے۔ وہ تو لوگوں کو توحید اور اتباع سنت کی طرف بلاتے تھے اور شرک و بدعت سے منع کرتے تھے، ان کا نکلنا تو رحمت تھا نہ کہ فتنہ اور اہل مکہ کو جو رسالہ انہوں نے لکھا ہے اس میں سراسر یہی مضامین ہیں کہ توحید اور اتباع سنت اختیار کرو اور شر کی بدعی امور سے پرہیز کرو، اونچی اونچی قبریں مت بناؤ، قبروں پر جاکر نذریں مت چڑھاؤ، منتیں مت مانو۔ یہ سب امور تو نہایت عمدہ اور سنت نبوی کے موافق ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اونچی قبروں کو گرانے کا حکم دیا تھا۔ پھر محمد بن عبدالوہاب نے اگر اپنے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی تو کیا قصور کیا۔ صلی اﷲ حبیبہ محمد و بارک وسلم۔ یعنی دجال جو مشرق کے ملک سے آئے گا۔ اسی طرف سے یاجوج ماجوج آئیں گے نجد سے مراد وہ ملک ہے عراق کا جو بلندی پر واقع ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا نہیں فرمائی کیوں کہ ادھر سے بڑی بڑی آفتوں کا ظہور ہونے والا تھا۔ حضرت حسین بھی اسی سرزمین میں شہید ہوئے۔ کوفہ، بابل وغیرہ یہ سب نجد میں داخل ہیں۔ بعضے بے وقوفوں نے نجد کے فتنے سے محمد بن عبدالوہاب کا نکلنا مراد رکھا ہے، ان کو یہ معلوم نہیں کہ محمد بن عبدالوہاب تو مسلمان اور موحد تھے۔ وہ تو لوگوں کو توحید اور اتباع سنت کی طرف بلاتے تھے اور شرک و بدعت سے منع کرتے تھے، ان کا نکلنا تو رحمت تھا نہ کہ فتنہ اور اہل مکہ کو جو رسالہ انہوں نے لکھا ہے اس میں سراسر یہی مضامین ہیں کہ توحید اور اتباع سنت اختیار کرو اور شر کی بدعی امور سے پرہیز کرو، اونچی اونچی قبریں مت بناؤ، قبروں پر جاکر نذریں مت چڑھاؤ، منتیں مت مانو۔ یہ سب امور تو نہایت عمدہ اور سنت نبوی کے موافق ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اونچی قبروں کو گرانے کا حکم دیا تھا۔ پھر محمد بن عبدالوہاب نے اگر اپنے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی تو کیا قصور کیا۔ صلی اﷲ حبیبہ محمد و بارک وسلم۔