‌صحيح البخاري - حدیث 7091

كِتَابُ الفِتَنِ بَابُ التَّعَوُّذِ مِنَ الفِتَنِ صحيح وقَالَ لِي خَلِيفَةُ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، وَمُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّ أَنَسًا، حَدَّثَهُمْ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا. وَقَالَ: «عَائِذًا بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ الفِتَنِ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7091

کتاب: فتنوں کے بیان میں باب : فتنوں سے پناہ مانگنا اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا، ان سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے سعید و معتمر کے والد نے قتادہ سے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، پھر یہی حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی، اس میں بجائے سوءکے شر کا لفظ ہے۔
تشریح : اس روایت کے لانے سے امام بخاری کا مطلب یہ ہے کہ سعید کی روایت میں خیر یا شر شک کے ساتھ مذکور ہے۔ جتنے صحابہ وہاں موجود تھے، سب رونے لگے کیوں کہ ان کو معلوم ہوگیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بوجہ کثرت سوالات بالکل رنجیدہ ہوگئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رنجیدہ ہونا خدا کے غضب کی نشانی ہے۔ جب کثرت سوالات سے آپ کو غصہ آیا تو خیال کرنا چاہئے کہ جو شخص آپ کے ارشادات کو سن کر اس پر عمل نہ کرے اور دوسرے چیلے چاٹروں کی بات سنے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ کس قدر ہوگا اور اس کو خدا کے غضب سے کتنا ڈرنا چاہئے۔ میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ اہل ہند کی غفلت اور بے اعتنائی اور حدیث اور قرآن کو چھوڑ دینے کی سزا میں کئی سال سے ان پر طاعون کی بلا نازل ہوئی ہے، معلوم نہیں آئندہ اور کیا عذات اترتا ہے۔ ابھی یہ پارہ ختم نہیں ہوا تھا یعنی یعنی ماہ صفر سنہ 1323ہجری میں پنجاب سے خبر آئی کہ وہاں سخت زلزلہ ہوا اور ہزاروں لاکھوں مکانات تہ خاک ہوگئے اور جو بچ رہے ہیں ان کی بھی حالت تباہ ہے نہ رہنے کو گھر نہ بیٹھنے کا ٹھکانہ۔ غرض اہل ہند کسی طرح خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوتے اور تعصب اور ناحق شناسی نہیں چھوڑتے، معلوم نہیں آئندہ اور کیا کیا عذاب آنے والے ہیں۔ یا اللہ! سچے مسلمانوں پر رم کر اور ان کو ان عذابوں سے بچادے آمین یا رب العالمین۔ مولانا وحیدالزماں مرحوم آج سے 75 سال پہلے کی باتیں کررہے ہیں مگر آج سنہ1398ہجری میں بھی آندھرا پردیش اور علاقہ میوات میں پانی کے طوفان نے عذابوں کی یاد تازہ کردی ہے۔ اس روایت کے لانے سے امام بخاری کا مطلب یہ ہے کہ سعید کی روایت میں خیر یا شر شک کے ساتھ مذکور ہے۔ جتنے صحابہ وہاں موجود تھے، سب رونے لگے کیوں کہ ان کو معلوم ہوگیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بوجہ کثرت سوالات بالکل رنجیدہ ہوگئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رنجیدہ ہونا خدا کے غضب کی نشانی ہے۔ جب کثرت سوالات سے آپ کو غصہ آیا تو خیال کرنا چاہئے کہ جو شخص آپ کے ارشادات کو سن کر اس پر عمل نہ کرے اور دوسرے چیلے چاٹروں کی بات سنے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ کس قدر ہوگا اور اس کو خدا کے غضب سے کتنا ڈرنا چاہئے۔ میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ اہل ہند کی غفلت اور بے اعتنائی اور حدیث اور قرآن کو چھوڑ دینے کی سزا میں کئی سال سے ان پر طاعون کی بلا نازل ہوئی ہے، معلوم نہیں آئندہ اور کیا عذات اترتا ہے۔ ابھی یہ پارہ ختم نہیں ہوا تھا یعنی یعنی ماہ صفر سنہ 1323ہجری میں پنجاب سے خبر آئی کہ وہاں سخت زلزلہ ہوا اور ہزاروں لاکھوں مکانات تہ خاک ہوگئے اور جو بچ رہے ہیں ان کی بھی حالت تباہ ہے نہ رہنے کو گھر نہ بیٹھنے کا ٹھکانہ۔ غرض اہل ہند کسی طرح خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوتے اور تعصب اور ناحق شناسی نہیں چھوڑتے، معلوم نہیں آئندہ اور کیا کیا عذاب آنے والے ہیں۔ یا اللہ! سچے مسلمانوں پر رم کر اور ان کو ان عذابوں سے بچادے آمین یا رب العالمین۔ مولانا وحیدالزماں مرحوم آج سے 75 سال پہلے کی باتیں کررہے ہیں مگر آج سنہ1398ہجری میں بھی آندھرا پردیش اور علاقہ میوات میں پانی کے طوفان نے عذابوں کی یاد تازہ کردی ہے۔