كِتَابُ الفِتَنِ بَابُ إِذَا التَقَى المُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ رَجُلٍ لَمْ يُسَمِّهِ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ خَرَجْتُ بِسِلَاحِي لَيَالِيَ الْفِتْنَةِ فَاسْتَقْبَلَنِي أَبُو بَكْرَةَ فَقَالَ أَيْنَ تُرِيدُ قُلْتُ أُرِيدُ نُصْرَةَ ابْنِ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَكِلَاهُمَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ قِيلَ فَهَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ قَالَ إِنَّهُ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ قَالَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ فَذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِأَيُّوبَ وَيُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ يُحَدِّثَانِي بِهِ فَقَالَا إِنَّمَا رَوَى هَذَا الحَدِيثَ الْحَسَنُ عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ بِهَذَا وَقَالَ مُؤَمَّلٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ وَيُونُسُ وَهِشَامٌ وَمُعَلَّى بْنُ زِيَادٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ الْأَحْنَفِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَوَاهُ مَعْمَرٌ عَنْ أَيُّوبَ وَرَوَاهُ بَكَّارُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ وَقَالَ غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَرْفَعْهُ سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ
کتاب: فتنوں کے بیان میں
باب : جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے بھڑ جائیں تو ان کے لیے کیا حکم ہے ؟
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایک شخص نے جس کا نام نہیں بتا یا ‘ ان سے مام حسن بصری نے بیان کیا کہ میں ایک مرتبہ باہمی فسادات کے دنوں میں اپنے ہتھیار لگا کر نکلا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ سے راستے میں ملاقات ہو گئی ۔ انہوں نے پوچھا کہاں جانے کا ارادہ ہے ؟ میں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے لڑکے کی ( جنگ جمل وصفین میں ) مدد کرنی چاہتا ہوں ۔ انہوں نے کہا لوٹ جاؤ ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب دو مسلمان اپنی تلواروں کو لے کر آمنے سامنے مقابلہ پر آجائیں تو دونوں دوزخی ہیں ۔ پوچھا گیا یہ تو قاتل تھا ‘ مقتول نے کیا کیا ( کہ وہ بھی ناری ہو گیا ) فرمایا کہ وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے کا ارادہ کئے ہوئے تھا ۔ حماد بن زید نے کہا کہ پھر میں نے یہ حدیث ایوب اور یونس بن عبید سے ذکر کی‘ میرا مقصد تھا کہ یہ دونوں بھی مجھ سے یہ حدیث بیان کریں‘ ان دونوں نے کہا کہ اس حدیث کی روایت حسن بصری نے احنف بن قیس سے اور انہوں نے ابو بکررضی اللہ عنہ سے کی ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا کہا ہم سے حماد بن زید نے یہی حدیث بیان کی اور مؤمل بن ہشام نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘کہا ہم سے ایوب ‘ یونس ‘ ہشام اور معلی بن زیاد نے امام حسن بصری سے بیان کیا ‘ ان سے احنف بن قیس اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس کی روایت معمر نے بھی ایوب سے کی ہے اور اس کی روایت بکار بن عبد العزیز نے اپنے باپ سے کی اور ان سے ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے اور غندر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے منصور نے ‘ ان سے ربعی بن حراش نے ‘ ان سے ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ اور سفیان ثوری نے بھی اس حدیث کو منصوربن معتمر سے روایت کیا‘ پھر یہ روایت مرفوعہ نہیں ہے ۔
تشریح :
بلکہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے جو نسائی میں یوں ہے ۔ اذا حمل الرجلان تسلمان السلاح احد ھما علی الاکثر فاواھما علی اشرف جھنم فاذا قتل احدھما الاخرھما فی النار ( ترجمہ وہی ہے جو مذکور ہو ا ) ہتھیار لے کر نکلنے والے احنف بن قیس تھے نہ کہ حضرت امام حسن بصری ۔ مطلب یہ کہ عمر بن عبید نے غلطی کی جواحنف کا نام چھوڑ دیا ۔ فتنوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے جو جمہور ی دور کی نام نہاد آزادی میں الیکشن کے دوران دیکھا جاسکتا ہے ۔ سند میں جن کا نام نہیں لیا وہ بقول بعض عمر و بن عبید تھا ۔
ایسے لاقانونی دور میں اپنی عزت اور جان کی حفاظت کا یہی راستہ بہتر ہے جو حدیث میں بتلا یا گیا ہے کہ سب سے متفرق ٹولیوں سے بالکل الگ ہو کر وقت گزاریں کسی باہمی جھگڑنے والی ٹولی میں شرکت نہ کریں خواہ نتیجہ میں کتنی ہی تکالیف کا سامنا ہو ۔
بلکہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے جو نسائی میں یوں ہے ۔ اذا حمل الرجلان تسلمان السلاح احد ھما علی الاکثر فاواھما علی اشرف جھنم فاذا قتل احدھما الاخرھما فی النار ( ترجمہ وہی ہے جو مذکور ہو ا ) ہتھیار لے کر نکلنے والے احنف بن قیس تھے نہ کہ حضرت امام حسن بصری ۔ مطلب یہ کہ عمر بن عبید نے غلطی کی جواحنف کا نام چھوڑ دیا ۔ فتنوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے جو جمہور ی دور کی نام نہاد آزادی میں الیکشن کے دوران دیکھا جاسکتا ہے ۔ سند میں جن کا نام نہیں لیا وہ بقول بعض عمر و بن عبید تھا ۔
ایسے لاقانونی دور میں اپنی عزت اور جان کی حفاظت کا یہی راستہ بہتر ہے جو حدیث میں بتلا یا گیا ہے کہ سب سے متفرق ٹولیوں سے بالکل الگ ہو کر وقت گزاریں کسی باہمی جھگڑنے والی ٹولی میں شرکت نہ کریں خواہ نتیجہ میں کتنی ہی تکالیف کا سامنا ہو ۔