كِتَابُ الفِتَنِ بَابُ تَكُونُ فِتْنَةٌ القَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ القَائِمِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ح قَالَ إِبْرَاهِيمُ وَحَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَتَكُونُ فِتَنٌ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنْ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنْ الْمَاشِي وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنْ السَّاعِي مَنْ تَشَرَّفَ لَهَا تَسْتَشْرِفْهُ فَمَنْ وَجَدَ مِنْهَا مَلْجَأً أَوْ مَعَاذًا فَلْيَعُذْ بِهِ
کتاب: فتنوں کے بیان میں
باب : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ایک ایسا فتنہ اٹھے گا جس سے بیٹھنے والا کھڑے رہنے والے سے بہتر ہوگا
ہم سے محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے والد نے ‘ ان سے ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابراہیم بن سعد نے کہا کہ مجھ سے صالح بن کیسان نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے سعید بن المسیب نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عنقریب ایسے فتنے برپا ہوں گے جن میں بیٹھنے والا کھڑے ہو نے والے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہونے والا ان میں چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا ان میں دوڑنے والے سے بہتر ہوگا ‘ جو دور سے ان کی طرف جھانک کر بھی دیکھے گا تو وہ ان کو بھی سمیٹ لیں گے ۔ اس وقت جس کسی کو کوئی پناہ کی جگہ مل جائے یا بچاؤ کامقام مل سکے وہ اس میں چلا جائے ۔
تشریح :
تاکہ ان فتنوں سے محفوظ رہے ۔ مراد وہ فتنہ ہے جو مسلمانوں میں آپس میں پیدا ہوا اور یہ نہ معلوم ہوسکے کہ حق کس طرف ہے ‘ ایسے وقت میں گوشہ نشینی بہتر ہے ۔ بعضوں نے کہا اس شہر سے ہجرت کر جائے جہاں ایسا فتنہ واقع ہوا گروہ آفت میں مبتلا ہو جائے اور کوئی اس کو مارنے آئے تو صبر کرے ۔ مارا جائے لیکن مسلمان پر ہاتھ نہ اٹھائے ۔ بعضوں نے کہا اپنی جان ومال کو بچا سکتا ہے ۔ جمہور علماءکا یہی قول ہے کہ جب کوئی گروہ امام سے باغی ہو جائے تو امام کے ساتھ ہو کر اس سے لڑنا جائز ہے جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوا اور اکثر اکابر صحابہ نے ان کے ساتھ ہو کر معاویہ رضی اللہ عنہ کے باغی گروہ کامقابلہ کیا اور یہی حق ہے مگر بعض صحابہ جیسے سعد اور ابن عمر اور ابو بکر رضی اللہ عنہم دونوں فریق سے الگ ہو کر گھر میں بیٹھے رہے ۔
تاکہ ان فتنوں سے محفوظ رہے ۔ مراد وہ فتنہ ہے جو مسلمانوں میں آپس میں پیدا ہوا اور یہ نہ معلوم ہوسکے کہ حق کس طرف ہے ‘ ایسے وقت میں گوشہ نشینی بہتر ہے ۔ بعضوں نے کہا اس شہر سے ہجرت کر جائے جہاں ایسا فتنہ واقع ہوا گروہ آفت میں مبتلا ہو جائے اور کوئی اس کو مارنے آئے تو صبر کرے ۔ مارا جائے لیکن مسلمان پر ہاتھ نہ اٹھائے ۔ بعضوں نے کہا اپنی جان ومال کو بچا سکتا ہے ۔ جمہور علماءکا یہی قول ہے کہ جب کوئی گروہ امام سے باغی ہو جائے تو امام کے ساتھ ہو کر اس سے لڑنا جائز ہے جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوا اور اکثر اکابر صحابہ نے ان کے ساتھ ہو کر معاویہ رضی اللہ عنہ کے باغی گروہ کامقابلہ کیا اور یہی حق ہے مگر بعض صحابہ جیسے سعد اور ابن عمر اور ابو بکر رضی اللہ عنہم دونوں فریق سے الگ ہو کر گھر میں بیٹھے رہے ۔