‌صحيح البخاري - حدیث 7076

كِتَابُ الفِتَنِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ» صحيح حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنَا شَقِيقٌ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7076

کتاب: فتنوں کے بیان میں باب : نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مار کر کافر نہ بن جانا ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ ان سے شقیق نے بیان کیا ‘ کہا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کو قتل کرنا کفرہے ۔
تشریح : یعنی بلا وجہ شرعی لڑنا کفر ہے ۔ یعنی کافروں کا سا فعل ہے جیسے کافر مسلمانوں سے نا حق لڑتے ہیں ایسے ہی اس شخص نے بھی کیا گو یا کافروں کی طرح عمل کیا ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان سے لڑا وہ کافر ہو گیا جیسے خارجیوں کا مذہب ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرما یا ‘ وان طائفتان من المومنین اقتتلوا ( الحجرات: 9 ) اور دونوں گروہوں کو مومن قرار دیا اور صحابہ نے آپس میں لڑائیاں کیں گو ایک طرف والے خطائے اجتہادی میں تھے مگر کسی نے ان کو کافر نہیں کہا۔ خود حضرت علی رضی اللہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ والوں کے حق میں فرمایا اخو اتنا بغوا علینا ۔ خارجی مردود مسلماوں کی جماعت سے علیحدہ ہو کر سارے مسلمانوں کو کافر قرار دینے لگے ۔ بس اپنے ہی تئیں مسلمان سمجھے اور پھر یہ لطف کہ ان خارجیوں ہی مردودوں نے مسلمانوں کے سر دار جناب علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا ۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی انہوں نے ہی قتل کیا ۔ حضرت عائشہ اور حضرت عثمان اور اجلائے صحابہ رضی اللہ عنہم کو کافر قرار دیا ۔ کہو جب یہ لوگ کافر ہو ئے تو تم کو اسلام کہاں سے نصیب ہوا ؟ یعنی بلا وجہ شرعی لڑنا کفر ہے ۔ یعنی کافروں کا سا فعل ہے جیسے کافر مسلمانوں سے نا حق لڑتے ہیں ایسے ہی اس شخص نے بھی کیا گو یا کافروں کی طرح عمل کیا ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان سے لڑا وہ کافر ہو گیا جیسے خارجیوں کا مذہب ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرما یا ‘ وان طائفتان من المومنین اقتتلوا ( الحجرات: 9 ) اور دونوں گروہوں کو مومن قرار دیا اور صحابہ نے آپس میں لڑائیاں کیں گو ایک طرف والے خطائے اجتہادی میں تھے مگر کسی نے ان کو کافر نہیں کہا۔ خود حضرت علی رضی اللہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ والوں کے حق میں فرمایا اخو اتنا بغوا علینا ۔ خارجی مردود مسلماوں کی جماعت سے علیحدہ ہو کر سارے مسلمانوں کو کافر قرار دینے لگے ۔ بس اپنے ہی تئیں مسلمان سمجھے اور پھر یہ لطف کہ ان خارجیوں ہی مردودوں نے مسلمانوں کے سر دار جناب علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا ۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی انہوں نے ہی قتل کیا ۔ حضرت عائشہ اور حضرت عثمان اور اجلائے صحابہ رضی اللہ عنہم کو کافر قرار دیا ۔ کہو جب یہ لوگ کافر ہو ئے تو تم کو اسلام کہاں سے نصیب ہوا ؟