‌صحيح البخاري - حدیث 7054

كِتَابُ الفِتَنِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «سَتَرَوْنَ بَعْدِي أُمُورًا تُنْكِرُونَهَا» صحيح حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ الْجَعْدِ أَبِي عُثْمَانَ حَدَّثَنِي أَبُو رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيُّ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ عَلَيْهِ فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7054

کتاب: فتنوں کے بیان میں باب : نبی کریم ﷺ کا فرمانا کہ میرے بعد تم بعض کام دیکھو گے جو تم کو برے لگیں گے ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے جعد ابی عثمان نے بیان کیا، ان سے ابورجاءالعطاردی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنے امیر کی کوئی ناپسند چیز دیکھی تو اسے چاہے کہ صبر کرے اس لیے کہ جس نے جماعت سے ایک بالشت بھر جدائی اختیار کی اور اسی حال میں مرا تو وہ جاہلیت کی سی موت مرے گا۔
تشریح : امام احمد کی روایت میں اتنا زیادہ ہے گو تم اپنے تئیں حکومت کا حق دار سمجھو جب بھی اس رائے پر نہ چلو بلکہ حاکم وقت کی اطاعت کرو، اس کا حکم سنو، یہاں تک کہ اگر اللہ کو منظور ہے تو بن لڑے بھڑے تم کو حکومت مل جائے۔ ابن حبان اور امام احمد کی روایت میں ہے گویہ حاکم تمہارا مال کھائے، تمہاری پیٹھ پر مار لگائے یعنی جب بھی صبر کرو۔ اگر کفر کرے تو اس سے لڑنے پر تم کو مواخذہ نہ ہوگا۔ دوسری روایت میں یوں ہے جب تک وہ تم کو صار اور صریح گناہ کی بات کا حکم نہ دے۔ تیسری روایت میں ہے جو حاکم اللہ کی نافرمانی کرے اس کی اطاعت نہیں کرنا چاہئے۔ ابن ابی شیبہ کی روایت میں یوں ہے تم پر ایسے لوگ حاکم ہوں گے جو تم کو ایسی باتوں کا حکم کریں گے جن کو تم نہیں پہچانتے اور ایسے کام کریں گے جن کو تم برا جانتے ہو تو ایسے حاکموں کی اطاعت کرنا تم کو ضروری نہیں یہ جو فرمایا اللہ کے پاس تم کو دلیل مل جائے گی یعنی اس سے لڑنے اور اس کی مخالفت کرنے کی سند تم کو مل جائے گی۔ اس سے یہ نکلا کہ جب تک حاکم کے قول و فعل کی تاویل شرعی ہوسکے۔ اس وقت تک اس سے لڑنا یا اس پر خروج کرنا جائز نہیں البتہ اگر صاف و صریح وہ شرع کے مخالف حکم دے تو اور قواعد اسلام کے برخلاف چلے جب تو اس پر اعتراض کرنا اور اگر نہ مانے تو اس سے لڑنا درست ہے۔ داؤدی نے کہا اگر ظالم حاکم کا معزول کرنا بغیر فرتنہ اور فساد کے ممکن ہو تب تو واجب ہے کہ وہ معزول کردیا جائے ورنہ صبر کرنا چاہئے۔ بعضوں نے کہا ابتداءفاسق کو حاکم بنانا درست نہیں اگر حکومت ملتے وقت عادل ہو پھر فاسق ہوجائے اس پر خروج کرنے میں علماءکا اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ خروج اس وقت تک جائز نہیں جب تک اعلانیہ کفر نہ کرے، اگر اعلانیہ کفر کی باتیں کرنے لگے اس وقت اس کو معزول کرنا واجب ہے۔ امام احمد کی روایت میں اتنا زیادہ ہے گو تم اپنے تئیں حکومت کا حق دار سمجھو جب بھی اس رائے پر نہ چلو بلکہ حاکم وقت کی اطاعت کرو، اس کا حکم سنو، یہاں تک کہ اگر اللہ کو منظور ہے تو بن لڑے بھڑے تم کو حکومت مل جائے۔ ابن حبان اور امام احمد کی روایت میں ہے گویہ حاکم تمہارا مال کھائے، تمہاری پیٹھ پر مار لگائے یعنی جب بھی صبر کرو۔ اگر کفر کرے تو اس سے لڑنے پر تم کو مواخذہ نہ ہوگا۔ دوسری روایت میں یوں ہے جب تک وہ تم کو صار اور صریح گناہ کی بات کا حکم نہ دے۔ تیسری روایت میں ہے جو حاکم اللہ کی نافرمانی کرے اس کی اطاعت نہیں کرنا چاہئے۔ ابن ابی شیبہ کی روایت میں یوں ہے تم پر ایسے لوگ حاکم ہوں گے جو تم کو ایسی باتوں کا حکم کریں گے جن کو تم نہیں پہچانتے اور ایسے کام کریں گے جن کو تم برا جانتے ہو تو ایسے حاکموں کی اطاعت کرنا تم کو ضروری نہیں یہ جو فرمایا اللہ کے پاس تم کو دلیل مل جائے گی یعنی اس سے لڑنے اور اس کی مخالفت کرنے کی سند تم کو مل جائے گی۔ اس سے یہ نکلا کہ جب تک حاکم کے قول و فعل کی تاویل شرعی ہوسکے۔ اس وقت تک اس سے لڑنا یا اس پر خروج کرنا جائز نہیں البتہ اگر صاف و صریح وہ شرع کے مخالف حکم دے تو اور قواعد اسلام کے برخلاف چلے جب تو اس پر اعتراض کرنا اور اگر نہ مانے تو اس سے لڑنا درست ہے۔ داؤدی نے کہا اگر ظالم حاکم کا معزول کرنا بغیر فرتنہ اور فساد کے ممکن ہو تب تو واجب ہے کہ وہ معزول کردیا جائے ورنہ صبر کرنا چاہئے۔ بعضوں نے کہا ابتداءفاسق کو حاکم بنانا درست نہیں اگر حکومت ملتے وقت عادل ہو پھر فاسق ہوجائے اس پر خروج کرنے میں علماءکا اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ خروج اس وقت تک جائز نہیں جب تک اعلانیہ کفر نہ کرے، اگر اعلانیہ کفر کی باتیں کرنے لگے اس وقت اس کو معزول کرنا واجب ہے۔