‌صحيح البخاري - حدیث 705

كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ مَنْ شَكَا إِمَامَهُ إِذَا طَوَّلَ صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيَّ، قَالَ: أَقْبَلَ رَجُلٌ بِنَاضِحَيْنِ وَقَدْ جَنَحَ اللَّيْلُ، فَوَافَقَ مُعَاذًا يُصَلِّي، فَتَرَكَ نَاضِحَهُ وَأَقْبَلَ إِلَى مُعَاذٍ، فَقَرَأَ بِسُورَةِ البَقَرَةِ - أَوِ النِّسَاءِ - فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ وَبَلَغَهُ أَنَّ مُعَاذًا نَالَ مِنْهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَكَا إِلَيْهِ مُعَاذًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مُعَاذُ، أَفَتَّانٌ أَنْتَ» - أَوْ «أَفَاتِنٌ» - ثَلاَثَ مِرَارٍ: «فَلَوْلاَ صَلَّيْتَ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ، وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى، فَإِنَّهُ يُصَلِّي وَرَاءَكَ الكَبِيرُ وَالضَّعِيفُ وَذُو الحَاجَةِ» أَحْسِبُ هَذَا فِي الحَدِيثِ، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: وَتَابَعَهُ سَعِيدُ بْنُ مَسْرُوقٍ [ص:143]، وَمِسْعَرٌ، وَالشَّيْبَانِيُّ، قَالَ عَمْرٌو، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مِقْسَمٍ، وَأَبُو الزُّبَيْرِ: عَنْ جَابِرٍ، قَرَأَ مُعَاذٌ فِي العِشَاءِ بِالْبَقَرَةِ، وَتَابَعَهُ الأَعْمَشُ، عَنْ مُحَارِبٍ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 705

کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں باب: امام سے نماز کی طوالت کی شکایت ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محارب بن دثار نے بیان کیا، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے سنا، آپ نے بتلایا کہ ایک شخص پانی اٹھانے والا دو اونٹ لئے ہوئے آیا، رات تاریک ہو چکی تھی۔ اس نے معاذ کو نماز پڑھاتے ہوئے پایا۔ اس لیے اپنے اونٹوں کو بٹھا کر ( نماز میں شریک ہونے کے لیے ) معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھا۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے نماز میں سورہ بقرہ یا سورہ نساء شروع کی۔ چنانچہ وہ شخص نیت توڑ کر چل دیا۔ پھر اسے معلوم ہوا کہ معاذ رضی اللہ عنہ نے مجھ کو برا بھلا کہا ہے۔ اس لیے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور معاذ کی شکایت کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا، معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالتے ہو۔ آپ نے تین مرتبہ ( فتان یا فاتن ) فرمایا، سبح اسم ربک الاعلی و الشمس و ضحہٰا، واللیل اذا یغشی ( سورتیں ) تم نے کیوں نہ پڑھیں، کیونکہ تمہارے پیچھے بوڑھے، کمزور اور حاجت مند نماز پڑھتے ہیں۔ شعبہ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ آخری جملہ ( کیونکہ تمہارے پیچھے الخ ) حدیث میں داخل ہے۔ شعبہ کے ساتھ اس کی متابعت سعید بن مسروق، مسعر اور شیبانی نے کی ہے اور عمرو بن دینار، عبیداللہ بن مقسم اور ابوالزبیر نے بھی اس حدیث کو جابر کے واسطہ سے بیان کیا ہے کہ معاذ نے عشاء میں سورہ بقرہ پڑھی تھی اور شعبہ کے ساتھ اس روایت کی متابعت اعمش نے محارب کے واسطہ سے کی ہے۔
تشریح : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے ایک نہایت اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کیا کسی ایسے کام کے بارے میں جو خیر محض ہو شکایت کی جاسکتی ہے یا نہیں۔ نماز ہر طرح خیر ہی خیر ہے، کسی برائی کا اس میں کوئی پہلو نہیں۔ اس کے باوجود اس سلسلے میں ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنا اور شکایت کی طر ف بھی توجہ فرمائی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں بھی شکایت بشرطیکہ معقول اور مناسب ہو جائز ہے۔ ( تفہیم البخاری ) دوسری روایت میں ہے کہ سورۃ الطارق اور والشمس و ضحٰہا یا سبح اسم یا اقتربت الساعۃ پڑھنے کا حکم فرمایا۔ مفصل قرآن کی ساتویں منزل کا نام ہے۔ یعنی سورۃ ق سے آخر قرآن تک۔ پھر ان میں تین ٹکڑے ہیں۔ طوال یعنی ق سے سورۃ عم تک۔ اور اوساط یعنی بیچ کی عم سے والضحیٰ تک۔ قصار یعنی چھوٹی والضحیٰ سے آخر تک۔ ائمہ کو ان ہدایات کا مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے ایک نہایت اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کیا کسی ایسے کام کے بارے میں جو خیر محض ہو شکایت کی جاسکتی ہے یا نہیں۔ نماز ہر طرح خیر ہی خیر ہے، کسی برائی کا اس میں کوئی پہلو نہیں۔ اس کے باوجود اس سلسلے میں ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنا اور شکایت کی طر ف بھی توجہ فرمائی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں بھی شکایت بشرطیکہ معقول اور مناسب ہو جائز ہے۔ ( تفہیم البخاری ) دوسری روایت میں ہے کہ سورۃ الطارق اور والشمس و ضحٰہا یا سبح اسم یا اقتربت الساعۃ پڑھنے کا حکم فرمایا۔ مفصل قرآن کی ساتویں منزل کا نام ہے۔ یعنی سورۃ ق سے آخر قرآن تک۔ پھر ان میں تین ٹکڑے ہیں۔ طوال یعنی ق سے سورۃ عم تک۔ اور اوساط یعنی بیچ کی عم سے والضحیٰ تک۔ قصار یعنی چھوٹی والضحیٰ سے آخر تک۔ ائمہ کو ان ہدایات کا مدنظر رکھنا ضروری ہے۔