كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ إِذَا طَوَّلَ الإِمَامُ، وَكَانَ لِلرَّجُلِ حَاجَةٌ، فَخَرَجَ فَصَلَّى صحيح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ [ص:142]، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كَانَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَرْجِعُ، فَيَؤُمُّ قَوْمَهُ، فَصَلَّى العِشَاءَ، فَقَرَأَ بِالْبَقَرَةِ، فَانْصَرَفَ الرَّجُلُ، فَكَأَنَّ مُعَاذًا تَنَاوَلَ مِنْهُ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «فَتَّانٌ، فَتَّانٌ، فَتَّانٌ» ثَلاَثَ مِرَارٍ - أَوْ قَالَ: «فَاتِنًا، فَاتِنًا، فَاتِنًا» - وَأَمَرَهُ بِسُورَتَيْنِ مِنْ أَوْسَطِ المُفَصَّلِ، قَالَ عَمْرٌو: لاَ أَحْفَظُهُمَا
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
باب: اگر امام لمبی سورۃ شروع کر دے
دوسری سند ) اور مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے عمرو سے بیان کیا، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے سنا، آپ نے فرمایا کہ معاذ بن جبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( فرض ) نماز پڑھتے پھر واپس جا کر اپنی قوم کے لوگوں کو ( وہی ) نماز پڑھایا کرتے تھے۔ ایک بار عشاء میں انھوں نے سورہ بقرہ شروع کی۔ ( مقتدیوں میں سے ) ایک شخص نماز توڑ کر چل دیا۔ معاذ اس کو برا کہنے لگے۔ یہ خبر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی ( اس شخص نے جا کر معاذ کی شکایت کی ) آپ نے معاذ کو فرمایا تو بلا میں ڈالنے والا ہے، بلا میں ڈالنے والا، بلا میں ڈالنے والا تین بار فرمایا۔ یا یوں فرمایا کہ تو فسادی ہے، فسادی، فسادی۔ پھر آپ نے معاذ کو حکم فرمایا کہ مفصل کے بیچ کی دو سورتیں پڑھا کرے۔ عمرو بن دینار نے کہا کہ مجھے یاد نہیں رہیں ( کہ کونسی سورتوں کا آپ نے نام لیا۔
تشریح :
اس سے امام شافعی اور امام احمد اور اہل حدیث کا مذہب ثابت ہوا کہ فرض پڑھنے والے کی اقتداءنفل پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے۔ حنفیہ نے یہاں بھی دور از کار تاویلات کی ہیں۔ جو سب محض تعصب مسلک کا نتیجہ ہے، مثلاً حضرت معاذ کے اوپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کے بارے میں لکھا ہے کہ ممکن ہے اس وجہ سے آپ خفا ہو ئے ہوں کہ دوبارہ کیوں جاکر پڑھائی ( دیکھو تفہیم البخاری پ:3 ص:97 ) یہ ایسی تاویل ہے جس کا اس واقعہ سے دور تک بھی تعلق نہیں۔
قیاس کن زگلستان من بہار مرا
اس سے امام شافعی اور امام احمد اور اہل حدیث کا مذہب ثابت ہوا کہ فرض پڑھنے والے کی اقتداءنفل پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے۔ حنفیہ نے یہاں بھی دور از کار تاویلات کی ہیں۔ جو سب محض تعصب مسلک کا نتیجہ ہے، مثلاً حضرت معاذ کے اوپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کے بارے میں لکھا ہے کہ ممکن ہے اس وجہ سے آپ خفا ہو ئے ہوں کہ دوبارہ کیوں جاکر پڑھائی ( دیکھو تفہیم البخاری پ:3 ص:97 ) یہ ایسی تاویل ہے جس کا اس واقعہ سے دور تک بھی تعلق نہیں۔
قیاس کن زگلستان من بہار مرا