‌صحيح البخاري - حدیث 7

كِتَابُ بَدْءِ الوَحْيِ بَابٌ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ الحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ: أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَكْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ، وَكَانُوا تُجَّارًا بِالشَّأْمِ فِي المُدَّةِ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَادَّ فِيهَا أَبَا سُفْيَانَ وَكُفَّارَ قُرَيْشٍ، فَأَتَوْهُ وَهُمْ بِإِيلِيَاءَ، فَدَعَاهُمْ فِي مَجْلِسِهِ، وَحَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّومِ، ثُمَّ دَعَاهُمْ وَدَعَا بِتَرْجُمَانِهِ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا بِهَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَقُلْتُ أَنَا أَقْرَبُهُمْ نَسَبًا، فَقَالَ: أَدْنُوهُ مِنِّي، وَقَرِّبُوا أَصْحَابَهُ فَاجْعَلُوهُمْ عِنْدَ ظَهْرِهِ، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ، فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ. فَوَاللَّهِ لَوْلاَ الحَيَاءُ مِنْ أَنْ يَأْثِرُوا عَلَيَّ كَذِبًا لَكَذَبْتُ عَنْهُ. ثُمَّ كَانَ أَوَّلَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَنْ قَالَ: كَيْفَ نَسَبُهُ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ، قَالَ: فَهَلْ قَالَ هَذَا القَوْلَ مِنْكُمْ أَحَدٌ قَطُّ قَبْلَهُ؟ قُلْتُ: لاَ. قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟ قُلْتُ: لاَ قَالَ: فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ فَقُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ. قَالَ: أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟ [ص:9] قُلْتُ: بَلْ يَزِيدُونَ. قَالَ: فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ؟ قُلْتُ: لاَ. قَالَ: فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ قُلْتُ: لاَ. قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ؟ قُلْتُ: لاَ، وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لاَ نَدْرِي مَا هُوَ فَاعِلٌ فِيهَا، قَالَ: وَلَمْ تُمْكِنِّي كَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرُ هَذِهِ الكَلِمَةِ، قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ: فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ؟ قُلْتُ: الحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالٌ، يَنَالُ مِنَّا وَنَنَالُ مِنْهُ. قَالَ: مَاذَا يَأْمُرُكُمْ؟ قُلْتُ: يَقُولُ: اعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَاتْرُكُوا مَا يَقُولُ آبَاؤُكُمْ، وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّدْقِ وَالعَفَافِ وَالصِّلَةِ. فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ: قُلْ لَهُ: سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ فَذَكَرْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو نَسَبٍ، فَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا. وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْكُمْ هَذَا القَوْلَ، فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ أَحَدٌ قَالَ هَذَا القَوْلَ قَبْلَهُ، لَقُلْتُ رَجُلٌ يَأْتَسِي بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ. وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ، فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، قُلْتُ فَلَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ، قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ أَبِيهِ، وَسَأَلْتُكَ، هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ، فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، فَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَذَرَ الكَذِبَ عَلَى النَّاسِ وَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ. وَسَأَلْتُكَ أَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبَعُوهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ، فَذَكَرْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمُ اتَّبَعُوهُ، وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ. وَسَأَلْتُكَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ، فَذَكَرْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ، وَكَذَلِكَ أَمْرُ الإِيمَانِ حَتَّى يَتِمَّ. وَسَأَلْتُكَ أَيَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ، فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، وَكَذَلِكَ الإِيمَانُ حِينَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ القُلُوبَ. وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ، فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لاَ تَغْدِرُ. وَسَأَلْتُكَ بِمَا يَأْمُرُكُمْ، فَذَكَرْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَيَنْهَاكُمْ عَنْ عِبَادَةِ الأَوْثَانِ، وَيَأْمُرُكُمْ بِالصَّلاَةِ وَالصِّدْقِ وَالعَفَافِ، فَإِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَسَيَمْلِكُ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ، وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ، لَمْ أَكُنْ أَظُنُّ أَنَّهُ مِنْكُمْ، فَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَاءَهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمِهِ. ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي بَعَثَ بِهِ دِحْيَةُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى، فَدَفَعَهُ إِلَى هِرَقْلَ، فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ: سَلاَمٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الهُدَى، أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الإِسْلاَمِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الأَرِيسِيِّينَ وَ {يَا أَهْلَ الكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ} قَالَ أَبُو سُفْيَانَ [ص:10]: فَلَمَّا قَالَ مَا قَالَ، وَفَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الكِتَابِ، كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ وَارْتَفَعَتِ الأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا، فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الأَصْفَرِ. فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيَّ الإِسْلاَمَ. وَكَانَ ابْنُ النَّاظُورِ، صَاحِبُ إِيلِيَاءَ وَهِرَقْلَ، سُقُفًّا عَلَى نَصَارَى الشَّأْمِ يُحَدِّثُ أَنَّ هِرَقْلَ حِينَ قَدِمَ إِيلِيَاءَ، أَصْبَحَ يَوْمًا خَبِيثَ النَّفْسِ، فَقَالَ بَعْضُ بَطَارِقَتِهِ: قَدِ اسْتَنْكَرْنَا هَيْئَتَكَ، قَالَ ابْنُ النَّاظُورِ: وَكَانَ هِرَقْلُ حَزَّاءً يَنْظُرُ فِي النُّجُومِ، فَقَالَ لَهُمْ حِينَ سَأَلُوهُ: إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حِينَ نَظَرْتُ فِي النُّجُومِ مَلِكَ الخِتَانِ قَدْ ظَهَرَ، فَمَنْ يَخْتَتِنُ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ؟ قَالُوا: لَيْسَ يَخْتَتِنُ إِلَّا اليَهُودُ، فَلاَ يُهِمَّنَّكَ شَأْنُهُمْ، وَاكْتُبْ إِلَى مَدَايِنِ مُلْكِكَ، فَيَقْتُلُوا مَنْ فِيهِمْ مِنَ اليَهُودِ. فَبَيْنَمَا هُمْ عَلَى أَمْرِهِمْ، أُتِيَ هِرَقْلُ بِرَجُلٍ أَرْسَلَ بِهِ مَلِكُ غَسَّانَ يُخْبِرُ عَنْ خَبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا اسْتَخْبَرَهُ هِرَقْلُ قَالَ: اذْهَبُوا فَانْظُرُوا أَمُخْتَتِنٌ هُوَ أَمْ لاَ، فَنَظَرُوا إِلَيْهِ، فَحَدَّثُوهُ أَنَّهُ مُخْتَتِنٌ، وَسَأَلَهُ عَنِ العَرَبِ، فَقَالَ: هُمْ يَخْتَتِنُونَ، فَقَالَ هِرَقْلُ: هَذَا مُلْكُ هَذِهِ الأُمَّةِ قَدْ ظَهَرَ. ثُمَّ كَتَبَ هِرَقْلُ إِلَى صَاحِبٍ لَهُ بِرُومِيَةَ، وَكَانَ نَظِيرَهُ فِي العِلْمِ، وَسَارَ هِرَقْلُ إِلَى حِمْصَ، فَلَمْ يَرِمْ حِمْصَ حَتَّى أَتَاهُ كِتَابٌ مِنْ صَاحِبِهِ يُوَافِقُ رَأْيَ هِرَقْلَ عَلَى خُرُوجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّهُ نَبِيٌّ، فَأَذِنَ هِرَقْلُ لِعُظَمَاءِ الرُّومِ فِي دَسْكَرَةٍ لَهُ بِحِمْصَ، ثُمَّ أَمَرَ بِأَبْوَابِهَا فَغُلِّقَتْ، ثُمَّ اطَّلَعَ فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الرُّومِ، هَلْ لَكُمْ فِي الفَلاَحِ وَالرُّشْدِ، وَأَنْ يَثْبُتَ مُلْكُكُمْ، فَتُبَايِعُوا هَذَا النَّبِيَّ؟ فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الوَحْشِ إِلَى الأَبْوَابِ، فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ، فَلَمَّا رَأَى هِرَقْلُ نَفْرَتَهُمْ، وَأَيِسَ مِنَ الإِيمَانِ، قَالَ: رُدُّوهُمْ عَلَيَّ، وَقَالَ: إِنِّي قُلْتُ مَقَالَتِي آنِفًا أَخْتَبِرُ بِهَا شِدَّتَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ، فَقَدْ رَأَيْتُ، فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ، فَكَانَ ذَلِكَ آخِرَ شَأْنِ هِرَقْلَ رَوَاهُ صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، وَيُونُسُ، وَمَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 7

کتاب: وحی کے بیان میں باب: (ابوسفیان اور ہرقل کا مکالمہ) ہم کو ابوالیمان حکم بن نافع نے حدیث بیان کی، انھیں اس حدیث کی شعیب نے خبر دی۔ انھوں نے زہری سے یہ حدیث سنی۔ انھیں عبیداللہ ابن عبداللہ ابن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس سے ابوسفیان بن حرب نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ہرقل ( شاہ روم ) نے ان کے پاس قریش کے قافلے میں ایک آدمی بلانے کو بھیجا اور اس وقت یہ لوگ تجارت کے لیے ملک شام گئے ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور ابوسفیان سے ایک وقتی عہد کیا ہوا تھا۔ جب ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیا پہنچے جہاں ہرقل نے دربار طلب کیا تھا۔ اس کے گرد روم کے بڑے بڑے لوگ ( علماء وزراء امراء ) بیٹھے ہوئے تھے۔ ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا۔ پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں۔ ( یہ سن کر ) ہرقل نے حکم دیا کہ اس کو ( ابوسفیان کو ) میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کی پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص کے ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ) حالات پوچھتا ہوں۔ اگر یہ مجھ سے کسی بات میں جھوٹ بول دے تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا، ابوسفیان کا قول ہے کہ ) خدا کی قسم! اگر مجھے یہ غیرت نہ آتی کہ یہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ضرور غلط گوئی سے کام لیتا۔ خیر پہلی بات جو ہرقل نے مجھ سے پوچھی وہ یہ کہ اس شخص کا خاندان تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا وہ تو بڑے اونچے عالی نسبت والے ہیں۔ کہنے لگا اس سے پہلے بھی کسی نے تم لوگوں میں ایسی بات کہی تھی؟ میں نے کہا نہیں کہنے لگا، اچھا اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ پھر اس نے کہا، بڑے لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے یا کمزوروں نے؟ میں نے کہا نہیں کمزوروں نے۔ پھر کہنے لگا، اس کے تابعدار روز بڑھتے جاتے ہیں یا کوئی ساتھی پھر بھی جاتا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ کہنے لگا کہ کیا اپنے اس دعوائے ( نبوت ) سے پہلے کبھی ( کسی بھی موقع پر ) اس نے جھوٹ بولا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ اور اب ہماری اس سے ( صلح کی ) ایک مقررہ مدت ٹھہری ہوئی ہے۔ معلوم نہیں وہ اس میں کیا کرنے والا ہے۔ ( ابوسفیان کہتے ہیں ) میں اس بات کے سوا اور کوئی ( جھوٹ ) اس گفتگو میں شامل نہ کر سکا۔ ہرقل نے کہا کیا تمہاری اس سے کبھی لڑائی بھی ہوتی ہے؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ بولا پھر تمہاری اور اس کی جنگ کا کیا حال ہوتا ہے؟ میں نے کہا، لڑائی ڈول کی طرح ہے، کبھی وہ ہم سے ( میدان جنگ ) جیت لیتے ہیں اور کبھی ہم ان سے جیت لیتے ہیں۔ ہرقل نے پوچھا۔ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟ میں نے کہا وہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کا کسی کو شریک نہ بناؤ اور اپنے باپ دادا کی ( شرک کی ) باتیں چھوڑ دو اور ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ ( یہ سب سن کر ) پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے کہا کہ ہم میں عالی نسب ہے اور پیغمبر اپنی قوم میں عالی نسب ہی بھیجے جایا کرتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا کہ ( دعوی نبوت کی ) یہ بات تمہارے اندر اس سے پہلے کسی اور نے بھی کہی تھی، تو تم نے جواب دیا کہ نہیں، تب میں نے ( اپنے دل میں ) کہا کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی نے کہی ہوتی تو میں سمجھتا کہ اس شخص نے بھی اسی بات کی تقلید کی ہے جو پہلے کہی جا چکی ہے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ بھی گزرا ہے، تم نے کہا کہ نہیں۔ تو میں نے ( دل میں ) کہا کہ ان کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہو گا تو کہہ دوں گا کہ وہ شخص ( اس بہانہ ) اپنے آباء و اجداد کی بادشاہت اور ان کا ملک ( دوبارہ ) حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس بات کے کہنے ( یعنی پیغمبری کا دعویٰ کرنے ) سے پہلے تم نے کبھی اس کو دروغ گوئی کا الزام لگایا؟ تم نے کہا کہ نہیں۔ تو میں نے سمجھ لیا کہ جو شخص آدمیوں کے ساتھ دروغ گوئی سے بچے وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹی بات کہہ سکتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ بڑے لوگ اس کے پیرو ہوتے ہیں یا کمزور آدمی۔ تم نے کہا کمزوروں نے اس کی اتباع کی ہے، تو ( دراصل ) یہی لوگ پیغمبروں کے متبعین ہوتے ہیں۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں۔ تم نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں اور ایمان کی کیفیت یہی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ کامل ہو جاتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا کوئی شخص اس کے دین سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے تم نے کہا نہیں، تو ایمان کی خاصیت بھی یہی ہے جن کے دلوں میں اس کی مسرت رچ بس جائے وہ اس سے لوٹا نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ کبھی عہد شکنی کرتے ہیں۔ تم نے کہا نہیں، پیغمبروں کا یہی حال ہوتا ہے، وہ عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے کہا کہ وہ تم سے کس چیز کے لیے کہتے ہیں۔ تم نے کہا کہ وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں بتوں کی پرستش سے روکتے ہیں۔ سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتے ہیں۔ لہٰذا اگر یہ باتیں جو تم کہہ رہے ہو سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک ہو جائے گا کہ جہاں میرے یہ دونوں پاؤں ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ ( پیغمبر ) آنے والا ہے۔ مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ تمہارے اندر ہو گا۔ اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو اس سے ملنے کے لیے ہر تکلیف گوارا کرتا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔ ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ خط منگایا جو آپ نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ حاکم بصریٰ کے پاس بھیجا تھا اور اس نے ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا۔ پھر اس کو پڑھا تو اس میں ( لکھا تھا ) : اللہ کے نام کے ساتھ جو نہایت مہربان اور رحم والا ہے۔ اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ خط ہے شاہِ روم کے لیے۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے بعد میں آپ کے سامنے دعوتِ اسلام پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو ( دین و دنیا میں ) سلامتی نصیب ہو گی۔ اللہ آپ کو دوہرا ثواب دے گا اور اگر آپ ( میری دعوت سے ) روگردانی کریں گے تو آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ ہی پر ہو گا۔ اور اے اہل کتاب! ایک ایسی بات پر آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا رب بنائے۔ پھر اگر وہ اہل کتاب ( اس بات سے ) منہ پھیر لیں تو ( مسلمانو! ) تم ان سے کہہ دو کہ ( تم مانو یا نہ مانو ) ہم تو ایک خدا کے اطاعت گزار ہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں : جب ہرقل نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اور خط پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے ارد گرد بہت شور و غوغہ ہوا، بہت سی آوازیں اٹھیں اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ تب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابوکبشہ کے بیٹے ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا ( دیکھو تو ) اس سے بنی اصفر ( روم ) کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔ مجھے اس وقت سے اس بات کا یقین ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب غالب ہو کر رہیں گے۔ حتیٰ کہ اللہ نے مجھے مسلمان کر دیا۔ ( راوی کا بیان ہے کہ ) ابن ناطور ایلیاء کا حاکم ہرقل کا مصاحب اور شام کے نصاریٰ کا لاٹ پادری بیان کرتا تھا کہ ہرقل جب ایلیا آیا، ایک دن صبح کو پریشان اُٹھا تو اس کے درباریوں نے دریافت کیا کہ آج ہم آپ کی حالت بدلی ہوئی پاتے ہیں۔ ( کیا وجہ ہے؟ ) ابن ناطور کا بیان ہے کہ ہرقل نجومی تھا، علم نجوم میں وہ پوری مہارت رکھتا تھا۔ اس نے اپنے ہم نشینوں کو بتایا کہ میں نے آج رات ستاروں پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ ہمارے ملک پر غالب آ گیا ہے۔ ( بھلا ) اس زمانے میں کون لوگ ختنہ کرتے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ یہود کے سوا کوئی ختنہ نہیں کرتا۔ سو ان کی وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ سلطنت کے تمام شہروں میں یہ حکم لکھ بھیجئے کہ وہاں جتنے یہودی ہوں سب قتل کر دیا جائے۔ وہ لوگ انہی باتوں میں مشغول تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا۔ جسے شاہِ غسان نے بھیجا تھا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کئے۔ جب ہرقل نے ( سارے حالات ) سن لیے تو کہا کہ جا کر دیکھو وہ ختنہ کئے ہوئے ہے یا نہیں؟ انھوں نے اسے دیکھا تو بتلایا کہ وہ ختنہ کیا ہوا ہے۔ ہرقل نے جب اس شخص سے عرب کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتلایا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں۔ تب ہرقل نے کہا کہ یہ ہی ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کے بادشاہ ہیں جو پیدا ہو چکے ہیں۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست کو رومیہ خط لکھا اور وہ بھی علم نجوم میں ہرقل کی طرح ماہر تھا۔ پھر وہاں سے ہرقل حمص چلا گیا۔ ابھی حمص سے نکلا نہیں تھا کہ اس کے دوست کا خط ( اس کے جواب میں ) آ گیا۔ اس کی رائے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہرقل کے موافق تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم واقعی ) پیغمبر ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے روم کے بڑے آدمیوں کو اپنے حمص کے محل میں طلب کیا اور اس کے حکم سے محل کے دروازے بند کر لیے گئے۔ پھر وہ ( اپنے خاص محل سے ) باہر آیا اور کہا “ اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں کچھ حصہ تمہارے لیے بھی ہے؟ اگر تم اپنی سلطنت کی بقا چاہتے ہو تو اس نبی کی بیعت کرلو اور مسلمان ہو جاؤ ” ( یہ سننا تھا کہ ) پھر وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف دوڑے ( مگر ) انھیں بند پایا۔ آخر جب ہرقل نے ( اس بات سے ) ان کی یہ نفرت دیکھی اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو کہنے لگا کہ ان لوگوں کو میرے پاس لاؤ۔ ( جب وہ دوبارہ آئے ) تو اس نے کہا میں نے جو بات کہی تھی اس سے تمہاری دینی پختگی کی آزمائش مقصود تھی سو وہ میں نے دیکھ لی۔ تب ( یہ بات سن کر ) وہ سب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور اس سے خوش ہو گئے۔ بالآخر ہرقل کی آخری حالت یہ ہی رہی۔ ابو عبداللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو صالح بن کیسان، یونس اور معمر نے زہری سے روایت کیا ہے
تشریح : وحی، نزول وحی،اقسام وحی، زمانِ وحی، مقام وحی ان جملہ تفصیلات کے ساتھ ساتھ ضرورت تھی کہ جس مقدس شخصیت پر وحی کا نزول ہورہا ہے ان کی ذاتِ گرامی کا تعارف کراتے ہوئے ان کے حالات پر بھی کچھ روشنی ڈالی جائے۔ مشہور مقولہ ہے “ الحق ماشہدت بہ الاعداء” حق وہ ہے جس کی دشمن بھی گواہی دیں۔ اسی اصول کے پیش نظر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ قدس سرہ العزیز نے یہاں اس تفصیلی حدیث کو نقل فرمایاجو دواہم ترین شخصیتوں کے درمیان ایک مکالمہ ہے جس کا موضوع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی اور آپ کی نبوت ورسالت ہے۔ یہ دونوں شخصیتیں اس وقت غیرمسلم تھیں۔ باہمی طور پر دونوں کے قوم ووطن، تہذیب وتمدن میں ہر طرح سے بعدالمشرقین ہے۔ امانت ودیانت اور اخلاق کے لحاظ سے ہردو اپنی اپنی جگہ پر ذمہ دار ہستیاں ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا مکالمہ بہت ہی جچاتلا ہوگا اور ان کی رائے بہت ہی اعلیٰ و ارفع ہوگی، چنانچہ اس حدیث میں پورے طور پر یہ چیز موجود ہے۔ اس لیے علامہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: “ لما کان المقصود بالذات من ذکرالوحی ہو تحقیق النبوۃ واثباتہا وکان حدیث ہرقل اوفرتادیۃ لذلک المقصود ادرجہ فی باب الوحی واللہ اعلم۔ ” اس عبارت کا مفہوم وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو اس مقام کے علاوہ کتاب الجہاد وکتاب التفسیر وکتاب الشہادات وکتاب الجزیۃ وادب وایمان وعلم واحکام ومغازی وغیرہ وغیرہ میں بھی نقل فرمایا ہے۔ اور ہر جگہ اسی مقام کے باب سے اس کی مطابقت پیدا کرتے ہوئے اس سے بہت سے احکام ومسائل کا استنباط فرمایا ہے۔ بعض متعصبین ومتجددین کہتے ہیں کہ محدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین محض ناقلین روایت تھے، اجتہاد واستنباط مسائل میں ان کو درک نہیں تھا۔ یہ محض جھوٹ اور محدثین کرام کی کھلی ہوئی توہین ہے۔جو ہرپہلو سے لائق صدمذمت ہے۔ بعض حضرات محدثین کرام خصوصاً امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو مسلک شافعی کا مقلد بتلایا کرتے ہیں۔ مگر اس بارے میں مزید تفصیلات سے قطع نظر ہم صاحب ایضاح البخاری کا ایک بیان یہاں نقل کردیتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوجائے گاکہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مقلد ہرگز نہ تھے بلکہ آپ کو مجتہد مطلق کا درجہ حاصل تھا۔ “ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی شافعی یا حنبلی سے تلمذ اور تحصیل علم کی بناء پر کسی کو شافعی یا حنبلی کہنا مناسب نہیں۔ بلکہ امام کے تراجم بخاری کے گہرے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ایک مجتہد ہے، انھوں نے جس طرح سے احناف رحمہم اللہ سے اختلاف کیا ہے وہاں حضرات شوافع سے اختلاف کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اجتہاد اور تراجم ابواب میں ان کی بالغ نظری کے پیش نظر ان کو کسی فقہ کا پابند نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ( ایضاح البخاری جزءاوّلص: 30 ) صحیح بخاری شریف کے عمیق مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے استنباط مسائل وفقہ الحدیث کے بارے میں بہت ہی غوروخوض سے کام لیا ہے اور ایک ایک حدیث سے بہت سے مسائل ثابت کئے ہیں۔ جیسا کہ اپنے اپنے مقامات پر ناظرین مطالعہ کریں گے۔ علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مقدمہ کی فصل ثانی میں فرماتے ہیں: تقرر انہ التزم فیہ الصحۃ وانہ لا یورد فیہ الا حدیثا صحیحا ( الی قولہ ) ثم رای ان لا یخلیہ من الفوائد الفقہیۃ والنکت الحکمیۃ فاستخرج بفہمہ من المتون معانی کثیرۃ فرقہا فی ابواب الکتاب بحسب تناسبہا۔ ( الی قولہ ) قال الشیخ محی الدین نفح اللہ بہ لیس مقصود البخاری الاقتصار علی الاحادیث فقط، بل مرادہ الاستنباط منھا والاستدلال لابواب ارادھا ( الی قولہ ) وقد ادعی بعضہم انہ صنع ذالک عمدا ( ہدی الساری، ص: 8، بیروت ) یہ بات ثابت ہے کہ امام نے التزام کیا ہے کہ اس میں سوائے صحیح حدیث کی اور کسی قسم کی روایت نہیں ذکر کریں گے اور بایں خیال کہ اس کو فوائد فقہی اور حکمت کے نکات سے خالی نہ رہنا چاہئیے، اپنی فہم سے متن حدیث سے بہت بہت معانی استخراج کئے۔ جن کو مناسبت کے ساتھ ابواب میں علیحدہ علیحدہ بیان کردیا۔ شیخ محی الدین نے کہا کہ امام کا مقصود حدیث ہی کا ذکر کردینا نہیں ہے بلکہ اس سے استدلال واستنباط کرکے باب مقرر کرنا ہے۔ ( انھیں وجوہات سے ) بعض نے دعویٰ کیا ہے کہ امام نے یہ سب کچھ خود اور قصداً کیا ہے۔ ” ( حل مشکلات بخاری رحمہ اللہ حضرت مولانا سیف بنارسی قدس سرہ ص: 16 ) 7ھ ماہ محرم کی پہلی تاریخ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہان عالم کے نام دعوت اسلام کے خطوط مبارک اپنے معزز سفراءکے ہاتھوں روانہ فرمائے جوسفیر جس قوم کے پاس بھیجا گیاوہ وہاں کی زبان جانتا تھا کہ تبلیغی فرائض بحسن وخوبی انجام دے سکے۔ ایسی ہی ضروریات کے لیے آپ کے واسطے چاندی کی مہرتیار کی گئی تھی۔ تین سطور میں اس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کندہ تھا۔ ہرقل شاہ قسطنطنیہ یاروما کی مشرقی شاخ سلطنت کا نامور شہنشاہ عیسائی المذہب تھا۔ حضرت دحیہ کلبی ص اس کے پاس نامہ مبارک لے کرگئے۔یہ بادشاہ سے بیت المقدس کے مقام پر ملے۔ جسے یہاں لفظ ایلیا سے یاد کیا گیا ہے۔ جس کے معنی بیت اللہ کے ہیں، ہرقل نے سفیر کے اعزاز میں بڑا ہی شان دار دربار منعقد کیا۔ اور سفیر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بہت سی باتیں دریافت کرتا رہا۔ اس کے بعد ہرقل نے مزید تحقیق کے لیے حکم دیا کہ اگر ملک میں کوئی مکہ کا آدمی آیا ہو تو اسے پیش کیا جائے۔ اتفاق سے ان دنوں ابوسفیان مع دیگر تاجران مکہ ملک شام آئے ہوئے تھے، ان کو بیت المقدس بلاکر دربار میں پیش کیا گیا۔ ان دنوں ابوسفیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جانی دشمن تھا۔ مگر قیصر کے دربار میں اس کی زبان سوائے حق وصداقت کے کچھ نہ بول سکی۔ ہرقل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ابوسفیان سے دس سوال کئے جو بہت گہرے حقائق اپنے اندر رکھتے تھے۔ ان کے جوابات میں ابوسفیان نے بھی جن حقائق کا اظہار کیا۔ ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ہرقل کے دل میں نقش ہوگئی مگر اپنی قوم وحکومت کے خوف سے وہ ایمان نہ لاسکا۔ بالآخر کفرہی کی حالت میں اس کا خاتمہ ہوا۔ مگر اس نے جوپیش گوئی کی تھی کہ ایک دن آئے گا کہ عرب مسلمان ہمارے ملک وتخت پر قابض ہوجائیں گے وہ حرف بہ حرف ثابت ہوئی اور وہ دن آیا کہ مسیحیت کا صدر مقام اور قبلہ ومرکز اچانک عیسائی دنیا کے ہاتھ سے نکل کر ایک نئی قوم کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ مشہور مؤرخ گبن کے لفظوں میں تمام مسیحی دنیا پر سکتہ کی حالت طاری ہوگئی۔ کیونکہ مسیحیت کی اس سب سے بڑی توہین کو نہ تومذہب کا کوئی متوقع معجزہ ہی روک سکا نہ عیسائی شہنشاہی کا لشکرجرار۔ پھر یہ صرف بیت المقدس ہی کی فتح نہ تھی بلکہ تمام ایشیاوافریقہ میں مسیحی فرمانروائی کا خاتمہ تھا۔ ہرقل کے یہ الفاظ جو اس نے تختہ جہاز پر لبنان کی چوٹیوں کومخاطب کرکے ک ہے تھے آج تک مؤرخین کی زبانوں پر ہیں “ الوداع سرزمین شام ہمیشہ کے لیے الوداع ” فدائے رسول حضرت قاضی محمدسلیمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ پٹیالوی: مناسب ہوگا کہ اس مکالمہ کو مختصراً فدائے رسول حضرت قاضی محمدسلیمان صاحب منصورپوری رحمۃ اللہ علیہ کے لفظوں میں بھی نقل کردیا جائے۔ جس سے ناظرین اس مکالمہ کو پورے طور پر سمجھ سکیں گے۔ قیصر: محمد کا خاندان اور نسب کیسا ہے؟ ابوسفیان تاجر: شریف وعظیم۔ قیصر: سچ ہے نبی شریف گھرانے کے ہوتے ہیں، تاکہ ان کی اطاعت میں کسی کو عار نہ ہو۔ قیصر: محمدسے پہلے بھی کسی نے عرب میں یاقریش میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے؟ ابوسفیان: نہیں۔ یہ جواب سن کر ہرقل نے کہا اگرایسا ہوتا تو میں سمجھ لیتا کہ اپنے سے پہلے کی تقلید اور ریس کرتا ہے۔ قیصر: نبی ہونے سے پہلے کیایہ شخص جھوٹ بولا کرتا تھا یا اس کو جھوٹ بولنے کی کبھی تہمت دی گئی تھی؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل نے اس جواب پر کہا یہ نہیں ہوسکتا کہ جس شخص نے لوگوں پر جھوٹ نہ بولا “ وہ خدا پر جھوٹ باندھے۔ قیصر: اس کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل نے اس جواب پر کہا اگر ایسا ہوتا تومیں سمجھ لیتا کہ نبوت کے بہانے سے باپ دادا کی سلطنت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ قیصر: محمد کے ماننے والے مسکین غریب لوگ زیادہ ہیں یا سردار اور قوی لوگ؟ ابوسفیان: مسکین حقیر لوگ۔ ہرقل نے اس جواب پر کہا ہرنبی کے پہلے ماننے والے مسکین غریب لوگ ہی ہوتے رہے ہیں۔ قیصر: ان لوگوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے یا کم ہورہی ہے؟ ابوسفیان: بڑھ رہی ہے۔ ہرقل نے کہا ایمان کا یہی خاصہ ہے کہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور حد کمال تک پہنچ جاتا ہے۔ قیصر: کوئی شخص اس کے دین سے بیزار ہوکر پھر بھی جاتا ہے؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل نے کہا لذت ایمانی کی یہی تاثیرہے کہ جب دل میں بیٹھ جاتی اور روح پر اپنا اثرقائم کرلیتی ہے تب جدا نہیں ہوتی۔ قیصر: یہ شخص کبھی عہدوپیمان کوتوڑ بھی دیتا ہے؟ ابوسفیان: نہیں۔ لیکن امسال ہمارا معاہدہ اس سے ہوا ہے دیکھئے کیا انجام ہو۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں صرف اس جواب میں اتنا فقرہ زیادہ کرسکا تھا۔ مگرقیصرنے اس پر کچھ توجہ نہ دی اور یوں کہا کہ بے شک نبی عہد شکن نہیں ہوتے، عہدشکنی دنیادار کیا کرتے ہیں، نبی دنیا کے طالب نہیں ہوتے۔ قیصر: کبھی اس شخص کے ساتھ تمہاری لڑائی بھی ہوئی ہے؟ ابوسفیان: ہاں۔ قیصر: جنگ کا نتیجہ کیارہا؟ ابوسفیان: کبھی وہ غالب رہا ( بدرمیں ) اور کبھی ہم ( احد میں ) ۔ ہرقل نے کہا خدا کے نبیوں کا یہی حال ہوتا ہے لیکن آخر کارخدا کی مدد اور فتح ان ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ قیصر: اس کی تعلیم کیا ہے؟ ابوسفیان: ایک خدا کی عبادت کرو، باپ دادا کے طریق ( بت پر ستی ) چھوڑدو۔ نماز، روزہ، سچائی، پاک دامنی اور صلہ رحمی کی پابندی اختیار کرو۔ ہرقل نے کہا نبی موعود کی یہی علامتیں ہم کو بتائی گئی ہیں۔ میں سمجھتا تھا کہ نبی کا ظہور ہونے والا ہے لیکن یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ عرب میں سے ہوگا۔ ابوسفیان! اگر تم نے سچ مچ جواب دئیے ہیں تو وہ ایک روز اس جگہ جہاں میں بیٹھا ہوا ہوں ( شام وبیت المقدس ) کا ضرور مالک ہوجائے گا۔ کاش! میں اس کی خدمت میں پہنچ سکتا اور نبی علیہ السلام کے پاؤں دھویا کرتا۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک پڑھا گیا۔ اراکین دربار اسے سن کر چیخے چلائے اور ہم کو دربار سے نکال دیا گیا۔ اسی روز سے اپنی ذلت کا نقش اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا یقین ہوگیا۔ ( رحمۃ للعالمین، جلد: اولص: 152, 154 ) ابوسفیان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ابوکبشہ کا لفظ استعمال کیاتھا۔ کیونکہ کفار مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوطنز اور تحقیر کے طور پر ابن ابوکبشہ کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ ابوکبشہ ایک شخص کا نام تھا جو بتوں کی بجائے ایک ستارہ شعریٰ کی پوجا کیا کرتا تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابوکبشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی باپ تھے۔ ہرقل کو جب یہ اندازہ ہوگیا کہ یہ لوگ کسی طرح بھی اسلام قبول نہیں کریں گے تواس نے بھی اپنا پینترا بدل دیا اور کہا کہ اس بات سے محض تمہارا امتحان مقصود تھا۔توسب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گرپڑے،جو گویا تعظیم اور اطاعت کا اظہار تھا۔ ہرقل کے بارے میں بعض لوگ اسلام کے بھی قائل ہیں۔ مگرصحیح بات یہی ہے کہ باوجود رغبت کے وہ اسلام قبول نہ کرسکا۔ علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ان کے عہدیعنی گیارہویں صدی ہجری تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کانامہ مبارک ہرقل کی اولاد میں محفوظ تھا اور اس کو تبرک سمجھ کر بڑے اہتمام سے سونے کے صندوقچے میں رکھا گیا تھا۔ ان کا اعتقاد تھا کہ: واوصانا آباءنا مادام ہذا الکتاب عندنا لایزال الملک فینا نحن نحفظہ غایۃ الحفظ ونعظمہ ونکتمہ عن النصاریٰ لیدوم الملک فینا انتہی۔ ( فتح الباری ) ابوسفیان آخری وقت میں جب کہ مکہ فتح ہوچکا تھا۔ اسلام قبول کرکے فدائیاں اسلام میں داخل ہوگئے تھے۔ اس وقت کے چنداشعار ملاحظہ ہوں: لعمرک انی یوم احمل رایۃ لتغلب خیل اللات خیل محمد فکا لمدلج الحیران اظلم لیلۃ فہذا اوانی حین اہدی فاہتدے ہدانی ہاد غیر نفسی و ولنی الی اللہ من طردتہ کل مطرد “ قسم ہے کہ جن دنوں میں نشان جنگ اس لیے اٹھایا کرتا تھا کہ لات ( بت ) کا لشکرمحمد ( ا ) کے لشکر پر غالب آجائے ان دنوں میں خارپشت جیسا تھا جو اندھیری رات میں ٹکریں کھاتا ہو۔ اب وہ وقت آگیا کہ میں ہدایت پاؤں اور سیدھی راہ اختیار کرلوں، مجھے ہادی نے نہ کہ میرے نفس نے ہدایت دی ہے اور خدا کا راستہ مجھے اس شخص نے بتلایا ہے جسے میں نے پورے طور پر دھتکار دیا اور چھوڑدیا تھا۔ ” متفرقات: ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے جس مدت صلح کا ذکر کیاتھا۔ اس سے صلح حدیبیہ کی دس سالہ مدت مراد ہے۔ ہرقل نے کہا تھا کہ وہ آخری نبی عرب میں سے ہوگا۔ یہ اس لیے کہ یہود ونصاریٰ یہی گمان کئے ہوئے تھے کہ آخری نبی بھی بنی اسرائیل ہی سے ہوگا۔ انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اس قول کو بھلادیا تھا کہ تمہارے بھائیوں میں سے خدا ایک پیغمبر میری طرح پیدا کرے گا۔ اور اشعیاءنبی کی اس بشارت کو بھی فراموش کر دیا تھا کہ فاران یعنی مکہ کے پہاڑوں سے اللہ ظاہر ہوا۔ نیز حضرت مسیح علیہ السلام کی اس بات کو بھی وہ بھول چکے تھے کہ جس پتھر کومعماروں نے کونے میں ڈال دیا تھا، وہی محل کا صدر نشین ہوا۔ نیز حضرت سلیمان علیہ السلام اس مقدس گیت کو بھی وہ فراموش کرچکے تھے کہ “ وہ توٹھیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے، میراخلیل، میراحبیب یہی ہے۔ وہ دس ہزار قدوسیوں کے درمیان جھنڈے کے مانند کھڑا ہوتا ہے اے یروشلم کے بیٹو! یہ جملہ بشارات یقینا حضرت سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تھیں۔مگر یہود ونصاریٰ ان کو عناداً بھول چکے تھے۔ اسی لیے ہرقل نے ایسا کہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نامہ مبارک میں آیت کریمہ ولایتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ ( آل عمران: 64 ) کا استعمال اس لیے فرمایا کہ یہودونصاریٰ میں اور بہت سے امراض کے ساتھ تقلید جامد کا مرض بھی بری طرح داخل ہوگیا تھا۔ وہ اپنے مولویوں اور درویشوں کی تقلید میں اتنے اندھے ہوگئے تھے کہ ان ہی کا فتویٰ ان کے لیے آسمانی وحی کا درجہ رکھتا تھا۔ ہمارے زمانے کے مقلدین جامدین کا بھی یہی حال ہے کہ ان کو کتنی ہی قرآنی آیات یااحادیث نبوی دکھلاؤ، قول امام کے مقابلہ میں ان سب کو رد کردیں گے۔ اسی تقلید جامد نے امت کا بیڑہ غرق کردیا۔ اناللہ ثم انا للہ حنفی شافعی نامو ں پر جنگ وجدال اسی تقلید جامدہی کا ثمرہ ہے۔ علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ہرقل اور اس کے دوست ضغاطر نے اسلام قبول کرنا چاہا تھا۔ مگرہرقل اپنی قوم سے ڈر گیا اور ضغاطر نے اسلام قبول کرلیا اور روم والوں کو اسلام کی دعوت دی مگر رومیوں نے ان کوشہید کردیا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے رومیوں کے لیے بنواصفر ( زردنسل ) کا لفظ استعمال کیاتھا۔ کہتے ہیں کہ روم کے جدا علیٰ نے جوروم بن عیص بن اسحاقعلیہ السلام تھے ایک حبشی شہزادی سے شادی کی تھی۔ جس سے زرد یعنی گندم گوں اولاد پیدا ہوئی۔ اسی لیے ان کو بنوالاصفر کہا گیا۔ اس حدیث سے اور بھی بہت سے مسائل پر روشنی پڑتی ہے۔ آداب مراسلت وطریق دعوت اسلام کے لیے نامہ مبارک میں ہمارے لیے بہت سے اسباق ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی تبلیغ کے لیے تحریری کوشش کرنا بھی سنت نبوی ہے۔ دعوت حق کو مناسب طور پر اکابر عصر کے سامنے رکھنا بھی مسلمانوں کا ایک اہم فریضہ ہے۔ یہ بھی ظاہرہوا کہ مختلف الخیال اقوام و ملل اگر مسائل مشترکہ میں اتحاد وعمل سے کام لیں تو یہ بھی عین منشائے اسلام ہے۔ ارشاد نبوی ( فان علیک اثم الیریسین ) سے معلوم ہوا کہ بڑوں کی ذمہ داریاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ یریسین کاشتکاروں کو کہتے ہیں۔ ہرقل کی رعایا کاشتکاروں ہی پر مشتمل تھی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آپ نے دعوت اسلام قبول نہ کی اور آپ کی متابعت میں آپ کی رعایا بھی اس نعمت عظمیٰ سے محروم رہ گئی توساری رعایا کا گناہ آپ کے سرہوگا۔ ان تفصیلی معلومات کے بعدہرقل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک منگایا جو عظیم بصریٰ کی معرفت ہرقل کے پاس پہنچا تھا۔ جس کا مضمون اس طرح شروع ہوتا تھا۔ ( بسم اللہ الرحمن الرحیم من محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی ہرقل عظیم الروم ) اسے سن کر ہرقل کا بھتیجا بہت ناراض ہوا اور چاہا کہ نامہ مبارک کوچاک کردیا جائے۔ کیونکہ اس میں شہنشاہ روم کے نام پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو فوقیت دی گئی ہے اور شہنشاہ کو بھی صرف عظیم الروم لکھا گیا ہے۔ حالانکہ آپ مالک الروم وسلطان الروم ہیں۔ ہرقل نے اپنے بھتیجے کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ خط میں جو لکھا ہے وہ صحیح ہے۔ میں مالک نہیں ہوں، مالک توصرف خدا وند کریم ہے۔ رہا اپنے نام کا تقدم سو اگروہ واقعتا نبی ہیں توواقعی ان کے نام کو تقدیم کا حق حاصل ہے۔ اس کے بعدنامہ مبارک پڑھا گیا۔ ابن ناطور شام میں عیسائی لاٹ پادری اور وہاں کا گورنربھی تھا۔ ہرقل جب حمص سے ایلیا آیا تو ابن ناطور نے ایک صبح کو اس کی حالت متغیر ومتفکر دیکھی۔ سوال کرنے پر ہرقل نے بتایا کہ میں نے آج رات ستاروں پر نظر کی تو معلوم ہواکہ میرے ملک پر ملک الختان ( ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ ) کاغلبہ ہوچکا ہے۔ ہرقل فطری طور پر کاہن تھا اور علم نجوم میں مہارت تام رکھتا تھا۔ منجمین کاعقیدہ تھا کہ برج عقرب میں قران السعدین کے وقت آخری نبی کا ظہور ہوگا۔ برج عقرب وہ ہے جب اس میں چاند اور سورج دونوں مل جاتے ہیں تو یہ وقت منجمین کے نزدیک قران السعدین کہلاتا ہے اور مبارک سمجھا جاتا ہے۔ یہ قران ہربیس سال کے بعد ہوتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت بھی قران السعدین میں ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک پر نبوت کاتاج بھی جس وقت رکھا گیا وہ قران السعدین کا وقت تھا۔ فتح مکہ کا وقت بھی سعدین برج عقرب میں جمع تھے۔ ایسے موقع پر ہرقل کا جواب اس کے نزدیک بڑی اہمیت رکھتا تھا۔ چنانچہ اس نے مصاحبین سے معلوم کیا کہ ختنے کا رواج کس ملک اور کس قوم میں ہے؟ چنانچہ یہودیوں کا نام لیا گیا اور ساتھ ہی ان کے قتل کا بھی مشورہ دیا گیا کہ حاکم غسان حارث بن ابی تامر نے ایک آدمی ( یہ شخص خود عرب کا رہنے والا تھا جو غسان کے بادشاہ کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خبردینے گیا، اس نے اس کو ہرقل کے پاس بھجوادیا،یہ مختون تھا ) کی معرفت ہرقل کوتحریری خبردی کہ عرب میں ایک نبی پیدا ہوئے ہیں۔ جب یہ معزز قاصد ہرقل کے پاس پہنچا توہرقل نے اپنے خواب کی بنا پر معلوم کیاکہ آنے والا قاصد فی الواقع مختون ہے۔ ہرقل نے اسی کو اپنے خواب کی تعبیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مدعی رسالت میری راجدھانی تک جلدہی سلطنت حاصل کرلے گا۔ اس کے بعدہرقل نے بطور مشورہ ضغاطر کواٹلی میں خط لکھا اور ساتھ میں مکتوب نبوی بھی بھیجا۔ یہ ہرقل کا ہم سبق تھا۔ضغاطر کے نام یہ مکتوب حضرت دحیہ کلبی ص ہی لے کر گئے تھے اور ان کوہدایت کی گئی تھی کہ یہ خط ضغاطر کو تنہائی میں دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیاگیا۔ اس نے نامہ مبارک کو آنکھوں سے لگایا اور بوسہ دیا اور جواب میں ہرقل کولکھا کہ میں ایمان لاچکاہوں۔ فی الواقع حضرت محمدانبی ورسول موعود ہیں۔ درباری لوگوں نے ضغاطر کا اسلام معلوم ہونے پر ان کو قتل کردیا۔ حضرت دحیہ کلبی ص واپس ہرقل کے دربار میں گئے اور ماجرا بیان کیا۔ جس سے ہرقل بھی اپنی قوم سے ڈر گیا۔ اس لیے دروازوں کوبندکرکے دربار منعقد کیا تاکہ ضغاطر کی طرح اس کو بھی قتل نہ کردیاجائے۔ دربایوں نے نامہ مبارک اور ہرقل کی رائے سن کر مخالفت میں شور وغوغا برپا کردیا۔ جس پر ہرقل کو اپنی رائے بدلنی پڑی اور بالآخر کفرہی پر دنیا سے رخصت ہوا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح کو حدیث انما الاعمال بالنیات اور آیت کریمہ انا اوحینا الیک سے شروع فرمایا تھا اور اس باب کو ہرقل کے قصہ اور نامہ نبوی پر ختم فرمایا اور ہرقل کی بابت لکھا کہ فکان ذلک اٰخرشان ہرقل۔یعنی ہرقل کا آخری حال یہ ہوا۔ اس میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ اشارتاً فرماتے ہیں کہ ہرشخص کا فرض ہے کہ وہ اپنی نیت کی درستگی کے ساتھ اپنی آخری حالت کودرست رکھنے کی فکر کرے کہ اعمال کا اعتبار نیت اور خاتمہ پر ہے۔ شروع کی آیت شریفہ انا اوحینا الیک الایۃ میں حضرت محمدا اور آپ سے قبل جملہ انبیاء ورسل صلی اللہ علیہم کی وحی کا سلسلہ عالیہ ایک ہی رہا اور سب کی دعوت کا خلاصہ صرف اقامت دین اور اتفاق باہمی ہے۔ اسی دعوت کو دہرایا گیا اور بتلایاگیا کہ عقیدہ توحید پر جملہ ملل وادیان کو جمع ہونے کی دعوت پیش کرنا یہی اسلام کا اوّلین مقصد ہے اور بنی نوع انسان کو انسانی غلامی کی زنجیروں سے نکال کر صرف ایک خالق مالک فاطر السموات والارض کی غلامی میں داخل ہونے کا پیغام دینا تعلیمات محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا لب لباب ہے۔اقامت دین یہ کہ صرف خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت، بندگی، اطاعت، فرمانبرداری کی جائے اور جملہ ظاہری وباطنی معبودان باطلہ سے منہ موڑلیا جائے۔ اقامت دین کا صحیح مفہوم کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کیا گیا ہے۔ ہرقل کافر تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نامہ مبارک میں اس کو ایک معزز لقب “ عظیم الروم ” سے مخاطب فرمایا۔ معلوم ہوا کہ غیرمسلموں کے ساتھ بھی اخلاق فاضلہ وتہذیب کے دائرہ میں خطاب کرنا سنت نبوی ہے۔ ( ا ) الحمدللہ باب بدءالوحی کے ترجمہ وتشریحات سے فراغت ہوئی۔ والحمدللہ اولاً وآخراً ربنا لاتواخذنا ان نسینا اواخطانا آمین۔ وحی، نزول وحی،اقسام وحی، زمانِ وحی، مقام وحی ان جملہ تفصیلات کے ساتھ ساتھ ضرورت تھی کہ جس مقدس شخصیت پر وحی کا نزول ہورہا ہے ان کی ذاتِ گرامی کا تعارف کراتے ہوئے ان کے حالات پر بھی کچھ روشنی ڈالی جائے۔ مشہور مقولہ ہے “ الحق ماشہدت بہ الاعداء” حق وہ ہے جس کی دشمن بھی گواہی دیں۔ اسی اصول کے پیش نظر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ قدس سرہ العزیز نے یہاں اس تفصیلی حدیث کو نقل فرمایاجو دواہم ترین شخصیتوں کے درمیان ایک مکالمہ ہے جس کا موضوع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی اور آپ کی نبوت ورسالت ہے۔ یہ دونوں شخصیتیں اس وقت غیرمسلم تھیں۔ باہمی طور پر دونوں کے قوم ووطن، تہذیب وتمدن میں ہر طرح سے بعدالمشرقین ہے۔ امانت ودیانت اور اخلاق کے لحاظ سے ہردو اپنی اپنی جگہ پر ذمہ دار ہستیاں ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا مکالمہ بہت ہی جچاتلا ہوگا اور ان کی رائے بہت ہی اعلیٰ و ارفع ہوگی، چنانچہ اس حدیث میں پورے طور پر یہ چیز موجود ہے۔ اس لیے علامہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: “ لما کان المقصود بالذات من ذکرالوحی ہو تحقیق النبوۃ واثباتہا وکان حدیث ہرقل اوفرتادیۃ لذلک المقصود ادرجہ فی باب الوحی واللہ اعلم۔ ” اس عبارت کا مفہوم وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو اس مقام کے علاوہ کتاب الجہاد وکتاب التفسیر وکتاب الشہادات وکتاب الجزیۃ وادب وایمان وعلم واحکام ومغازی وغیرہ وغیرہ میں بھی نقل فرمایا ہے۔ اور ہر جگہ اسی مقام کے باب سے اس کی مطابقت پیدا کرتے ہوئے اس سے بہت سے احکام ومسائل کا استنباط فرمایا ہے۔ بعض متعصبین ومتجددین کہتے ہیں کہ محدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین محض ناقلین روایت تھے، اجتہاد واستنباط مسائل میں ان کو درک نہیں تھا۔ یہ محض جھوٹ اور محدثین کرام کی کھلی ہوئی توہین ہے۔جو ہرپہلو سے لائق صدمذمت ہے۔ بعض حضرات محدثین کرام خصوصاً امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو مسلک شافعی کا مقلد بتلایا کرتے ہیں۔ مگر اس بارے میں مزید تفصیلات سے قطع نظر ہم صاحب ایضاح البخاری کا ایک بیان یہاں نقل کردیتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوجائے گاکہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مقلد ہرگز نہ تھے بلکہ آپ کو مجتہد مطلق کا درجہ حاصل تھا۔ “ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی شافعی یا حنبلی سے تلمذ اور تحصیل علم کی بناء پر کسی کو شافعی یا حنبلی کہنا مناسب نہیں۔ بلکہ امام کے تراجم بخاری کے گہرے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ایک مجتہد ہے، انھوں نے جس طرح سے احناف رحمہم اللہ سے اختلاف کیا ہے وہاں حضرات شوافع سے اختلاف کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اجتہاد اور تراجم ابواب میں ان کی بالغ نظری کے پیش نظر ان کو کسی فقہ کا پابند نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ( ایضاح البخاری جزءاوّلص: 30 ) صحیح بخاری شریف کے عمیق مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے استنباط مسائل وفقہ الحدیث کے بارے میں بہت ہی غوروخوض سے کام لیا ہے اور ایک ایک حدیث سے بہت سے مسائل ثابت کئے ہیں۔ جیسا کہ اپنے اپنے مقامات پر ناظرین مطالعہ کریں گے۔ علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مقدمہ کی فصل ثانی میں فرماتے ہیں: تقرر انہ التزم فیہ الصحۃ وانہ لا یورد فیہ الا حدیثا صحیحا ( الی قولہ ) ثم رای ان لا یخلیہ من الفوائد الفقہیۃ والنکت الحکمیۃ فاستخرج بفہمہ من المتون معانی کثیرۃ فرقہا فی ابواب الکتاب بحسب تناسبہا۔ ( الی قولہ ) قال الشیخ محی الدین نفح اللہ بہ لیس مقصود البخاری الاقتصار علی الاحادیث فقط، بل مرادہ الاستنباط منھا والاستدلال لابواب ارادھا ( الی قولہ ) وقد ادعی بعضہم انہ صنع ذالک عمدا ( ہدی الساری، ص: 8، بیروت ) یہ بات ثابت ہے کہ امام نے التزام کیا ہے کہ اس میں سوائے صحیح حدیث کی اور کسی قسم کی روایت نہیں ذکر کریں گے اور بایں خیال کہ اس کو فوائد فقہی اور حکمت کے نکات سے خالی نہ رہنا چاہئیے، اپنی فہم سے متن حدیث سے بہت بہت معانی استخراج کئے۔ جن کو مناسبت کے ساتھ ابواب میں علیحدہ علیحدہ بیان کردیا۔ شیخ محی الدین نے کہا کہ امام کا مقصود حدیث ہی کا ذکر کردینا نہیں ہے بلکہ اس سے استدلال واستنباط کرکے باب مقرر کرنا ہے۔ ( انھیں وجوہات سے ) بعض نے دعویٰ کیا ہے کہ امام نے یہ سب کچھ خود اور قصداً کیا ہے۔ ” ( حل مشکلات بخاری رحمہ اللہ حضرت مولانا سیف بنارسی قدس سرہ ص: 16 ) 7ھ ماہ محرم کی پہلی تاریخ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہان عالم کے نام دعوت اسلام کے خطوط مبارک اپنے معزز سفراءکے ہاتھوں روانہ فرمائے جوسفیر جس قوم کے پاس بھیجا گیاوہ وہاں کی زبان جانتا تھا کہ تبلیغی فرائض بحسن وخوبی انجام دے سکے۔ ایسی ہی ضروریات کے لیے آپ کے واسطے چاندی کی مہرتیار کی گئی تھی۔ تین سطور میں اس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کندہ تھا۔ ہرقل شاہ قسطنطنیہ یاروما کی مشرقی شاخ سلطنت کا نامور شہنشاہ عیسائی المذہب تھا۔ حضرت دحیہ کلبی ص اس کے پاس نامہ مبارک لے کرگئے۔یہ بادشاہ سے بیت المقدس کے مقام پر ملے۔ جسے یہاں لفظ ایلیا سے یاد کیا گیا ہے۔ جس کے معنی بیت اللہ کے ہیں، ہرقل نے سفیر کے اعزاز میں بڑا ہی شان دار دربار منعقد کیا۔ اور سفیر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بہت سی باتیں دریافت کرتا رہا۔ اس کے بعد ہرقل نے مزید تحقیق کے لیے حکم دیا کہ اگر ملک میں کوئی مکہ کا آدمی آیا ہو تو اسے پیش کیا جائے۔ اتفاق سے ان دنوں ابوسفیان مع دیگر تاجران مکہ ملک شام آئے ہوئے تھے، ان کو بیت المقدس بلاکر دربار میں پیش کیا گیا۔ ان دنوں ابوسفیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جانی دشمن تھا۔ مگر قیصر کے دربار میں اس کی زبان سوائے حق وصداقت کے کچھ نہ بول سکی۔ ہرقل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ابوسفیان سے دس سوال کئے جو بہت گہرے حقائق اپنے اندر رکھتے تھے۔ ان کے جوابات میں ابوسفیان نے بھی جن حقائق کا اظہار کیا۔ ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ہرقل کے دل میں نقش ہوگئی مگر اپنی قوم وحکومت کے خوف سے وہ ایمان نہ لاسکا۔ بالآخر کفرہی کی حالت میں اس کا خاتمہ ہوا۔ مگر اس نے جوپیش گوئی کی تھی کہ ایک دن آئے گا کہ عرب مسلمان ہمارے ملک وتخت پر قابض ہوجائیں گے وہ حرف بہ حرف ثابت ہوئی اور وہ دن آیا کہ مسیحیت کا صدر مقام اور قبلہ ومرکز اچانک عیسائی دنیا کے ہاتھ سے نکل کر ایک نئی قوم کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ مشہور مؤرخ گبن کے لفظوں میں تمام مسیحی دنیا پر سکتہ کی حالت طاری ہوگئی۔ کیونکہ مسیحیت کی اس سب سے بڑی توہین کو نہ تومذہب کا کوئی متوقع معجزہ ہی روک سکا نہ عیسائی شہنشاہی کا لشکرجرار۔ پھر یہ صرف بیت المقدس ہی کی فتح نہ تھی بلکہ تمام ایشیاوافریقہ میں مسیحی فرمانروائی کا خاتمہ تھا۔ ہرقل کے یہ الفاظ جو اس نے تختہ جہاز پر لبنان کی چوٹیوں کومخاطب کرکے ک ہے تھے آج تک مؤرخین کی زبانوں پر ہیں “ الوداع سرزمین شام ہمیشہ کے لیے الوداع ” فدائے رسول حضرت قاضی محمدسلیمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ پٹیالوی: مناسب ہوگا کہ اس مکالمہ کو مختصراً فدائے رسول حضرت قاضی محمدسلیمان صاحب منصورپوری رحمۃ اللہ علیہ کے لفظوں میں بھی نقل کردیا جائے۔ جس سے ناظرین اس مکالمہ کو پورے طور پر سمجھ سکیں گے۔ قیصر: محمد کا خاندان اور نسب کیسا ہے؟ ابوسفیان تاجر: شریف وعظیم۔ قیصر: سچ ہے نبی شریف گھرانے کے ہوتے ہیں، تاکہ ان کی اطاعت میں کسی کو عار نہ ہو۔ قیصر: محمدسے پہلے بھی کسی نے عرب میں یاقریش میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے؟ ابوسفیان: نہیں۔ یہ جواب سن کر ہرقل نے کہا اگرایسا ہوتا تو میں سمجھ لیتا کہ اپنے سے پہلے کی تقلید اور ریس کرتا ہے۔ قیصر: نبی ہونے سے پہلے کیایہ شخص جھوٹ بولا کرتا تھا یا اس کو جھوٹ بولنے کی کبھی تہمت دی گئی تھی؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل نے اس جواب پر کہا یہ نہیں ہوسکتا کہ جس شخص نے لوگوں پر جھوٹ نہ بولا “ وہ خدا پر جھوٹ باندھے۔ قیصر: اس کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل نے اس جواب پر کہا اگر ایسا ہوتا تومیں سمجھ لیتا کہ نبوت کے بہانے سے باپ دادا کی سلطنت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ قیصر: محمد کے ماننے والے مسکین غریب لوگ زیادہ ہیں یا سردار اور قوی لوگ؟ ابوسفیان: مسکین حقیر لوگ۔ ہرقل نے اس جواب پر کہا ہرنبی کے پہلے ماننے والے مسکین غریب لوگ ہی ہوتے رہے ہیں۔ قیصر: ان لوگوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے یا کم ہورہی ہے؟ ابوسفیان: بڑھ رہی ہے۔ ہرقل نے کہا ایمان کا یہی خاصہ ہے کہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور حد کمال تک پہنچ جاتا ہے۔ قیصر: کوئی شخص اس کے دین سے بیزار ہوکر پھر بھی جاتا ہے؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل نے کہا لذت ایمانی کی یہی تاثیرہے کہ جب دل میں بیٹھ جاتی اور روح پر اپنا اثرقائم کرلیتی ہے تب جدا نہیں ہوتی۔ قیصر: یہ شخص کبھی عہدوپیمان کوتوڑ بھی دیتا ہے؟ ابوسفیان: نہیں۔ لیکن امسال ہمارا معاہدہ اس سے ہوا ہے دیکھئے کیا انجام ہو۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں صرف اس جواب میں اتنا فقرہ زیادہ کرسکا تھا۔ مگرقیصرنے اس پر کچھ توجہ نہ دی اور یوں کہا کہ بے شک نبی عہد شکن نہیں ہوتے، عہدشکنی دنیادار کیا کرتے ہیں، نبی دنیا کے طالب نہیں ہوتے۔ قیصر: کبھی اس شخص کے ساتھ تمہاری لڑائی بھی ہوئی ہے؟ ابوسفیان: ہاں۔ قیصر: جنگ کا نتیجہ کیارہا؟ ابوسفیان: کبھی وہ غالب رہا ( بدرمیں ) اور کبھی ہم ( احد میں ) ۔ ہرقل نے کہا خدا کے نبیوں کا یہی حال ہوتا ہے لیکن آخر کارخدا کی مدد اور فتح ان ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ قیصر: اس کی تعلیم کیا ہے؟ ابوسفیان: ایک خدا کی عبادت کرو، باپ دادا کے طریق ( بت پر ستی ) چھوڑدو۔ نماز، روزہ، سچائی، پاک دامنی اور صلہ رحمی کی پابندی اختیار کرو۔ ہرقل نے کہا نبی موعود کی یہی علامتیں ہم کو بتائی گئی ہیں۔ میں سمجھتا تھا کہ نبی کا ظہور ہونے والا ہے لیکن یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ عرب میں سے ہوگا۔ ابوسفیان! اگر تم نے سچ مچ جواب دئیے ہیں تو وہ ایک روز اس جگہ جہاں میں بیٹھا ہوا ہوں ( شام وبیت المقدس ) کا ضرور مالک ہوجائے گا۔ کاش! میں اس کی خدمت میں پہنچ سکتا اور نبی علیہ السلام کے پاؤں دھویا کرتا۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک پڑھا گیا۔ اراکین دربار اسے سن کر چیخے چلائے اور ہم کو دربار سے نکال دیا گیا۔ اسی روز سے اپنی ذلت کا نقش اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا یقین ہوگیا۔ ( رحمۃ للعالمین، جلد: اولص: 152, 154 ) ابوسفیان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ابوکبشہ کا لفظ استعمال کیاتھا۔ کیونکہ کفار مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوطنز اور تحقیر کے طور پر ابن ابوکبشہ کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ ابوکبشہ ایک شخص کا نام تھا جو بتوں کی بجائے ایک ستارہ شعریٰ کی پوجا کیا کرتا تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابوکبشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی باپ تھے۔ ہرقل کو جب یہ اندازہ ہوگیا کہ یہ لوگ کسی طرح بھی اسلام قبول نہیں کریں گے تواس نے بھی اپنا پینترا بدل دیا اور کہا کہ اس بات سے محض تمہارا امتحان مقصود تھا۔توسب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گرپڑے،جو گویا تعظیم اور اطاعت کا اظہار تھا۔ ہرقل کے بارے میں بعض لوگ اسلام کے بھی قائل ہیں۔ مگرصحیح بات یہی ہے کہ باوجود رغبت کے وہ اسلام قبول نہ کرسکا۔ علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ان کے عہدیعنی گیارہویں صدی ہجری تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کانامہ مبارک ہرقل کی اولاد میں محفوظ تھا اور اس کو تبرک سمجھ کر بڑے اہتمام سے سونے کے صندوقچے میں رکھا گیا تھا۔ ان کا اعتقاد تھا کہ: واوصانا آباءنا مادام ہذا الکتاب عندنا لایزال الملک فینا نحن نحفظہ غایۃ الحفظ ونعظمہ ونکتمہ عن النصاریٰ لیدوم الملک فینا انتہی۔ ( فتح الباری ) ابوسفیان آخری وقت میں جب کہ مکہ فتح ہوچکا تھا۔ اسلام قبول کرکے فدائیاں اسلام میں داخل ہوگئے تھے۔ اس وقت کے چنداشعار ملاحظہ ہوں: لعمرک انی یوم احمل رایۃ لتغلب خیل اللات خیل محمد فکا لمدلج الحیران اظلم لیلۃ فہذا اوانی حین اہدی فاہتدے ہدانی ہاد غیر نفسی و ولنی الی اللہ من طردتہ کل مطرد “ قسم ہے کہ جن دنوں میں نشان جنگ اس لیے اٹھایا کرتا تھا کہ لات ( بت ) کا لشکرمحمد ( ا ) کے لشکر پر غالب آجائے ان دنوں میں خارپشت جیسا تھا جو اندھیری رات میں ٹکریں کھاتا ہو۔ اب وہ وقت آگیا کہ میں ہدایت پاؤں اور سیدھی راہ اختیار کرلوں، مجھے ہادی نے نہ کہ میرے نفس نے ہدایت دی ہے اور خدا کا راستہ مجھے اس شخص نے بتلایا ہے جسے میں نے پورے طور پر دھتکار دیا اور چھوڑدیا تھا۔ ” متفرقات: ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے جس مدت صلح کا ذکر کیاتھا۔ اس سے صلح حدیبیہ کی دس سالہ مدت مراد ہے۔ ہرقل نے کہا تھا کہ وہ آخری نبی عرب میں سے ہوگا۔ یہ اس لیے کہ یہود ونصاریٰ یہی گمان کئے ہوئے تھے کہ آخری نبی بھی بنی اسرائیل ہی سے ہوگا۔ انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اس قول کو بھلادیا تھا کہ تمہارے بھائیوں میں سے خدا ایک پیغمبر میری طرح پیدا کرے گا۔ اور اشعیاءنبی کی اس بشارت کو بھی فراموش کر دیا تھا کہ فاران یعنی مکہ کے پہاڑوں سے اللہ ظاہر ہوا۔ نیز حضرت مسیح علیہ السلام کی اس بات کو بھی وہ بھول چکے تھے کہ جس پتھر کومعماروں نے کونے میں ڈال دیا تھا، وہی محل کا صدر نشین ہوا۔ نیز حضرت سلیمان علیہ السلام اس مقدس گیت کو بھی وہ فراموش کرچکے تھے کہ “ وہ توٹھیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے، میراخلیل، میراحبیب یہی ہے۔ وہ دس ہزار قدوسیوں کے درمیان جھنڈے کے مانند کھڑا ہوتا ہے اے یروشلم کے بیٹو! یہ جملہ بشارات یقینا حضرت سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تھیں۔مگر یہود ونصاریٰ ان کو عناداً بھول چکے تھے۔ اسی لیے ہرقل نے ایسا کہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نامہ مبارک میں آیت کریمہ ولایتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ ( آل عمران: 64 ) کا استعمال اس لیے فرمایا کہ یہودونصاریٰ میں اور بہت سے امراض کے ساتھ تقلید جامد کا مرض بھی بری طرح داخل ہوگیا تھا۔ وہ اپنے مولویوں اور درویشوں کی تقلید میں اتنے اندھے ہوگئے تھے کہ ان ہی کا فتویٰ ان کے لیے آسمانی وحی کا درجہ رکھتا تھا۔ ہمارے زمانے کے مقلدین جامدین کا بھی یہی حال ہے کہ ان کو کتنی ہی قرآنی آیات یااحادیث نبوی دکھلاؤ، قول امام کے مقابلہ میں ان سب کو رد کردیں گے۔ اسی تقلید جامد نے امت کا بیڑہ غرق کردیا۔ اناللہ ثم انا للہ حنفی شافعی نامو ں پر جنگ وجدال اسی تقلید جامدہی کا ثمرہ ہے۔ علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ہرقل اور اس کے دوست ضغاطر نے اسلام قبول کرنا چاہا تھا۔ مگرہرقل اپنی قوم سے ڈر گیا اور ضغاطر نے اسلام قبول کرلیا اور روم والوں کو اسلام کی دعوت دی مگر رومیوں نے ان کوشہید کردیا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے رومیوں کے لیے بنواصفر ( زردنسل ) کا لفظ استعمال کیاتھا۔ کہتے ہیں کہ روم کے جدا علیٰ نے جوروم بن عیص بن اسحاقعلیہ السلام تھے ایک حبشی شہزادی سے شادی کی تھی۔ جس سے زرد یعنی گندم گوں اولاد پیدا ہوئی۔ اسی لیے ان کو بنوالاصفر کہا گیا۔ اس حدیث سے اور بھی بہت سے مسائل پر روشنی پڑتی ہے۔ آداب مراسلت وطریق دعوت اسلام کے لیے نامہ مبارک میں ہمارے لیے بہت سے اسباق ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی تبلیغ کے لیے تحریری کوشش کرنا بھی سنت نبوی ہے۔ دعوت حق کو مناسب طور پر اکابر عصر کے سامنے رکھنا بھی مسلمانوں کا ایک اہم فریضہ ہے۔ یہ بھی ظاہرہوا کہ مختلف الخیال اقوام و ملل اگر مسائل مشترکہ میں اتحاد وعمل سے کام لیں تو یہ بھی عین منشائے اسلام ہے۔ ارشاد نبوی ( فان علیک اثم الیریسین ) سے معلوم ہوا کہ بڑوں کی ذمہ داریاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ یریسین کاشتکاروں کو کہتے ہیں۔ ہرقل کی رعایا کاشتکاروں ہی پر مشتمل تھی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آپ نے دعوت اسلام قبول نہ کی اور آپ کی متابعت میں آپ کی رعایا بھی اس نعمت عظمیٰ سے محروم رہ گئی توساری رعایا کا گناہ آپ کے سرہوگا۔ ان تفصیلی معلومات کے بعدہرقل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک منگایا جو عظیم بصریٰ کی معرفت ہرقل کے پاس پہنچا تھا۔ جس کا مضمون اس طرح شروع ہوتا تھا۔ ( بسم اللہ الرحمن الرحیم من محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی ہرقل عظیم الروم ) اسے سن کر ہرقل کا بھتیجا بہت ناراض ہوا اور چاہا کہ نامہ مبارک کوچاک کردیا جائے۔ کیونکہ اس میں شہنشاہ روم کے نام پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو فوقیت دی گئی ہے اور شہنشاہ کو بھی صرف عظیم الروم لکھا گیا ہے۔ حالانکہ آپ مالک الروم وسلطان الروم ہیں۔ ہرقل نے اپنے بھتیجے کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ خط میں جو لکھا ہے وہ صحیح ہے۔ میں مالک نہیں ہوں، مالک توصرف خدا وند کریم ہے۔ رہا اپنے نام کا تقدم سو اگروہ واقعتا نبی ہیں توواقعی ان کے نام کو تقدیم کا حق حاصل ہے۔ اس کے بعدنامہ مبارک پڑھا گیا۔ ابن ناطور شام میں عیسائی لاٹ پادری اور وہاں کا گورنربھی تھا۔ ہرقل جب حمص سے ایلیا آیا تو ابن ناطور نے ایک صبح کو اس کی حالت متغیر ومتفکر دیکھی۔ سوال کرنے پر ہرقل نے بتایا کہ میں نے آج رات ستاروں پر نظر کی تو معلوم ہواکہ میرے ملک پر ملک الختان ( ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ ) کاغلبہ ہوچکا ہے۔ ہرقل فطری طور پر کاہن تھا اور علم نجوم میں مہارت تام رکھتا تھا۔ منجمین کاعقیدہ تھا کہ برج عقرب میں قران السعدین کے وقت آخری نبی کا ظہور ہوگا۔ برج عقرب وہ ہے جب اس میں چاند اور سورج دونوں مل جاتے ہیں تو یہ وقت منجمین کے نزدیک قران السعدین کہلاتا ہے اور مبارک سمجھا جاتا ہے۔ یہ قران ہربیس سال کے بعد ہوتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت بھی قران السعدین میں ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک پر نبوت کاتاج بھی جس وقت رکھا گیا وہ قران السعدین کا وقت تھا۔ فتح مکہ کا وقت بھی سعدین برج عقرب میں جمع تھے۔ ایسے موقع پر ہرقل کا جواب اس کے نزدیک بڑی اہمیت رکھتا تھا۔ چنانچہ اس نے مصاحبین سے معلوم کیا کہ ختنے کا رواج کس ملک اور کس قوم میں ہے؟ چنانچہ یہودیوں کا نام لیا گیا اور ساتھ ہی ان کے قتل کا بھی مشورہ دیا گیا کہ حاکم غسان حارث بن ابی تامر نے ایک آدمی ( یہ شخص خود عرب کا رہنے والا تھا جو غسان کے بادشاہ کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خبردینے گیا، اس نے اس کو ہرقل کے پاس بھجوادیا،یہ مختون تھا ) کی معرفت ہرقل کوتحریری خبردی کہ عرب میں ایک نبی پیدا ہوئے ہیں۔ جب یہ معزز قاصد ہرقل کے پاس پہنچا توہرقل نے اپنے خواب کی بنا پر معلوم کیاکہ آنے والا قاصد فی الواقع مختون ہے۔ ہرقل نے اسی کو اپنے خواب کی تعبیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مدعی رسالت میری راجدھانی تک جلدہی سلطنت حاصل کرلے گا۔ اس کے بعدہرقل نے بطور مشورہ ضغاطر کواٹلی میں خط لکھا اور ساتھ میں مکتوب نبوی بھی بھیجا۔ یہ ہرقل کا ہم سبق تھا۔ضغاطر کے نام یہ مکتوب حضرت دحیہ کلبی ص ہی لے کر گئے تھے اور ان کوہدایت کی گئی تھی کہ یہ خط ضغاطر کو تنہائی میں دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیاگیا۔ اس نے نامہ مبارک کو آنکھوں سے لگایا اور بوسہ دیا اور جواب میں ہرقل کولکھا کہ میں ایمان لاچکاہوں۔ فی الواقع حضرت محمدانبی ورسول موعود ہیں۔ درباری لوگوں نے ضغاطر کا اسلام معلوم ہونے پر ان کو قتل کردیا۔ حضرت دحیہ کلبی ص واپس ہرقل کے دربار میں گئے اور ماجرا بیان کیا۔ جس سے ہرقل بھی اپنی قوم سے ڈر گیا۔ اس لیے دروازوں کوبندکرکے دربار منعقد کیا تاکہ ضغاطر کی طرح اس کو بھی قتل نہ کردیاجائے۔ دربایوں نے نامہ مبارک اور ہرقل کی رائے سن کر مخالفت میں شور وغوغا برپا کردیا۔ جس پر ہرقل کو اپنی رائے بدلنی پڑی اور بالآخر کفرہی پر دنیا سے رخصت ہوا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح کو حدیث انما الاعمال بالنیات اور آیت کریمہ انا اوحینا الیک سے شروع فرمایا تھا اور اس باب کو ہرقل کے قصہ اور نامہ نبوی پر ختم فرمایا اور ہرقل کی بابت لکھا کہ فکان ذلک اٰخرشان ہرقل۔یعنی ہرقل کا آخری حال یہ ہوا۔ اس میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ اشارتاً فرماتے ہیں کہ ہرشخص کا فرض ہے کہ وہ اپنی نیت کی درستگی کے ساتھ اپنی آخری حالت کودرست رکھنے کی فکر کرے کہ اعمال کا اعتبار نیت اور خاتمہ پر ہے۔ شروع کی آیت شریفہ انا اوحینا الیک الایۃ میں حضرت محمدا اور آپ سے قبل جملہ انبیاء ورسل صلی اللہ علیہم کی وحی کا سلسلہ عالیہ ایک ہی رہا اور سب کی دعوت کا خلاصہ صرف اقامت دین اور اتفاق باہمی ہے۔ اسی دعوت کو دہرایا گیا اور بتلایاگیا کہ عقیدہ توحید پر جملہ ملل وادیان کو جمع ہونے کی دعوت پیش کرنا یہی اسلام کا اوّلین مقصد ہے اور بنی نوع انسان کو انسانی غلامی کی زنجیروں سے نکال کر صرف ایک خالق مالک فاطر السموات والارض کی غلامی میں داخل ہونے کا پیغام دینا تعلیمات محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا لب لباب ہے۔اقامت دین یہ کہ صرف خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت، بندگی، اطاعت، فرمانبرداری کی جائے اور جملہ ظاہری وباطنی معبودان باطلہ سے منہ موڑلیا جائے۔ اقامت دین کا صحیح مفہوم کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کیا گیا ہے۔ ہرقل کافر تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نامہ مبارک میں اس کو ایک معزز لقب “ عظیم الروم ” سے مخاطب فرمایا۔ معلوم ہوا کہ غیرمسلموں کے ساتھ بھی اخلاق فاضلہ وتہذیب کے دائرہ میں خطاب کرنا سنت نبوی ہے۔ ( ا ) الحمدللہ باب بدءالوحی کے ترجمہ وتشریحات سے فراغت ہوئی۔ والحمدللہ اولاً وآخراً ربنا لاتواخذنا ان نسینا اواخطانا آمین۔