كِتَابُ التَّعْبِيرِ بَابُ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنَ الوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ح و حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ قَالَ الزُّهْرِيُّ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ فَكَانَ يَأْتِي حِرَاءً فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَتُزَوِّدُهُ لِمِثْلِهَا حَتَّى فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فِيهِ فَقَالَ اقْرَأْ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ حَتَّى بَلَغَ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ فَرَجَعَ بِهَا تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ يَا خَدِيجَةُ مَا لِي وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ وَقَالَ قَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي فَقَالَتْ لَهُ كَلَّا أَبْشِرْ فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَيٍّ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخُو أَبِيهَا وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ فَيَكْتُبُ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنْ الْإِنْجِيلِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ أَيْ ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَخِيكَ فَقَالَ وَرَقَةُ ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَى فَقَالَ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا أَكُونُ حَيًّا حِينَ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ فَقَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ مِنْهُ نَفْسَهُ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا فَيَسْكُنُ لِذَلِكَ جَأْشُهُ وَتَقِرُّ نَفْسُهُ فَيَرْجِعُ فَإِذَا طَالَتْ عَلَيْهِ فَتْرَةُ الْوَحْيِ غَدَا لِمِثْلِ ذَلِكَ فَإِذَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَالِقُ الْإِصْبَاحِ ضَوْءُ الشَّمْسِ بِالنَّهَارِ وَضَوْءُ الْقَمَرِ بِاللَّيْلِ
کتاب: خوابوں کی تعبیر کے بیان میں
باب : اور رسول اللہ ﷺ پر وحی کی ابتدا سچے خواب کے ذریعہ ہوئی
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل بن خالد نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ( دوسری سند امام بخاری نے کہا ) کہ مجھ سے عبداللہ بن محمدی مسندی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا مجھ سے عبد الرزاق نے بیان کیا ‘ ان سے معمر نے بیان کیا ‘ ان سے زہری نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبردی اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداءسونے کی حالت میں سچے خواب کے ذریعہ ہوئی ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو خواب بھی دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح سامنے آجا تا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں چلے جاتے اور اس میں تنہا خدا کی یاد کرتے تھے چند مقررہ دنوں کے لیے۔ ( یہاں آتے ) اور ان دنوس کا توشہ بھی ساتھ لاتے ۔ پھر حضرت خدیجہ صلی اللہ علیہ وسلم عنہما کے پاس واپس تشریف لے جاتے اور وہ پھر اتنا ہی توشہ آپ کے ساتھ کردیتیں یہاں تک کہ حق آپ کے پاس اچانک آگیا اور آپ غار حرا ہی میں تھے ۔ چنانچہ اس میں فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا کہ پڑھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایاکہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ آخر ا س نے مجھے پکڑ لیا اور زور سے دابا اور خوب دابا جس کی وجہ سے مجھ کو بہت تکلیف ہوئی ۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ اس نے مجھے ایسا دابا کہ میں بے قابو ہو گیا یا انہوں نے اپنا زور ختم کردیا اور پھر چھوڑ کر اس نے مجھ سے کہا کہ پڑھے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ہے ۔ الفاظ ” مالم یعلم “ تک ۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے تو آپ کے مونڈھوں کے گوشت ( ڈر کے مارے ) پھڑک رہے تھے ۔ جب گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے تو فرمایا کہ مجھے چادر اڑھا دو ‘ مجھے چادر اڑھا دو چنانچہ کو چادر اڑھا دی گئی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف دور ہو گیا تو فرمایا کہ خدیجہ رضی اللہ عنہ میرا حال کیا ہوگیا ہے ؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سارا حال بیان کیا اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے ۔ لیکن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ عنہما نے کہا خدا کی قسم ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا ‘ آپ خوش رہئے خداوند تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا ۔ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ‘ بات سچی بولتے ہیں ‘ نا داروں کا بوجھ اٹھا تے ہیں ‘ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی وجہ سے پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔ پھر آپ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ عنہما ورقہ بن نوفل بن اسد عبد العزیٰ بن قصی کے پاس لائیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے والد خویلد کے بھائی کے بیٹے تھے ۔ جو زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہو گئے تھے اور عربی لکھ لیتے تھے اور وہ جتنا اللہ تعالیٰ چاہتا عربی میں انجیل کا ترجمہ لکھا کرتے تھے ‘ وہ اس وقت بہت بوڑھے ہو گئے تھے اور بینائی بھی جاتی رہی تھی ۔ ان سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے کہا بھائی ! اپنے بھتیجے کی بات سنو ۔ ورقہ نے پوچھا بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دیکھا تھا وہ سنا یا تو ورقہ نے کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ ( جبریل علیہ السلام ) ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر آیا تھا ۔ کاش میں اس وقت جوان ہوتا جب تمہیں تمہاری قوم نکال دے گی اور زندہ رہتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا یہ مجھے نکالیں گے ؟ ورقہ نے کہا کہ ہاں ۔ جب بھی کوئی نبی ورسول وہ پیغام لے کر آیا جسے لے کر آپ آئے ہیں تو اس کے ساتھ دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارے وہ دن پا لیے تو میں تمہاری بھر پور مدد کروں گا لیکن کچھ ہی دنوں بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا اور وحی کا سلسلہ کٹ گیا اور آنحضرت کو اس کی وجہ سے اتنا غم تھا کہ آپ نے کئی مرتبہ پہاڑ کی بلند چوٹی سے اپنے آپ کو گرا دینا چاہا لیکن جب بھی آپ کسی پہا ڑ کی چوٹی پر چڑھے تا کہ اس پر سے اپنے آپ کو گرادیں تو جبریل علیہ السلام آپ کے سامنے آگئے اور کہا کہ یا محمد ! آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں ۔ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سکون ہوتا اور آپ واپس آجاتے لیکن جب وحی زیادہ دنوں تک رکی رہی تو آپ نے ایک مرتبہ اور ایسا ارادہ کیا لیکن جب پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تو حضرت جبریل علیہ السلام سامنے آئے اور اسی طرح کی بات پھر کہی ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ عنہما نے کہا سورۃ انعام میں لفظ فالق الاصباح سے مراد دن میں سورج کی روشنی اور رات میں چاند کی روشنی ہے ۔
تشریح :
یہاں امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں یہ ذکر ہے کہ آپ کے خواب سچے ہوا کرتے تھے ۔ مذہبی کتابوں کے دوسری زبانوں میں تراجم کا سلسلہ مدت مدیر سے جاری ہے جیسا کہ حضرت ورقہ کے حال سے ظاہر ہے ۔ ان کو جنت میں اچھی حالت میں دیکھا گیا تھا جو اس ملاقات اور ان کے ایمان کی برکت تھی ‘ جو ان کو حاصل ہوئی ۔
یہاں امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں یہ ذکر ہے کہ آپ کے خواب سچے ہوا کرتے تھے ۔ مذہبی کتابوں کے دوسری زبانوں میں تراجم کا سلسلہ مدت مدیر سے جاری ہے جیسا کہ حضرت ورقہ کے حال سے ظاہر ہے ۔ ان کو جنت میں اچھی حالت میں دیکھا گیا تھا جو اس ملاقات اور ان کے ایمان کی برکت تھی ‘ جو ان کو حاصل ہوئی ۔