كِتَابُ الحِيَلِ بَابُ احْتِيَالِ العَامِلِ لِيُهْدَى لَهُ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَارُ أَحَقُّ بِصَقَبِهِ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِنْ اشْتَرَى دَارًا بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ فَلَا بَأْسَ أَنْ يَحْتَالَ حَتَّى يَشْتَرِيَ الدَّارَ بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ وَيَنْقُدَهُ تِسْعَةَ آلَافِ دِرْهَمٍ وَتِسْعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ وَيَنْقُدَهُ دِينَارًا بِمَا بَقِيَ مِنْ الْعِشْرِينَ الْأَلْفَ فَإِنْ طَلَبَ الشَّفِيعُ أَخَذَهَا بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ وَإِلَّا فَلَا سَبِيلَ لَهُ عَلَى الدَّارِ فَإِنْ اسْتُحِقَّتْ الدَّارُ رَجَعَ الْمُشْتَرِي عَلَى الْبَائِعِ بِمَا دَفَعَ إِلَيْهِ وَهُوَ تِسْعَةُ آلَافِ دِرْهَمٍ وَتِسْعُ مِائَةٍ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ دِرْهَمًا وَدِينَارٌ لِأَنَّ الْبَيْعَ حِينَ اسْتُحِقَّ انْتَقَضَ الصَّرْفُ فِي الدِّينَارِ فَإِنْ وَجَدَ بِهَذِهِ الدَّارِ عَيْبًا وَلَمْ تُسْتَحَقَّ فَإِنَّهُ يَرُدُّهَا عَلَيْهِ بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ قَالَ فَأَجَازَ هَذَا الْخِدَاعَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْعُ الْمُسْلِمِ لَا دَاءَ وَلَا خِبْثَةَ وَلَا غَائِلَةَ
کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
باب : عامل کا تحفہ لینے کے لیے حیلہ کرنا
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے ابراہیم بن میسرہ نے ‘ ان سے عمرو بن شرید نے اور ان سے حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پڑوسی اپنے پڑوسی کا زیادہ حق دار ہے ۔
اور بعض لوگوں نے کہا اگر کسی شخص نے ایک گھر بیس ہزار درہم کو خریدا ( تو شفعہ کا حق ساقط کرنے کے لیے) یہ حیلہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ مالک مکان کو نو ہراز نو سو ننانوے درہم نقد ادا کرے اب بیس ہزار کے تکملہ میں جو باقی رہے یعنی دس ہزار اور ایک دہم ‘اس کے بدل مالک مکان کو ایک دینار ( اشرفی ) دے دے ۔ اس صورت میں اگر شفیع اس مکان کو لینا چاہے گا تو اس کو بیس ہزار درہم پر لینا ہوگا ورنہ وہ اس گھر کو نہیں لے سکتا ۔ ایسی صورت میں اگر بیع کے بعد یہ گھر ( بائع کے سوا ) اور کسی کا نکلا تو خریدار بائع سے وہی قیمت پھیر لے گا جو اس نے دی ہے یعنی نو ہزار نو سو ننانوے درہم اور ایک دینار ( بیس ہزار دہم نہیں پھیر سکتا ) کیونکہ جب وہ گھر کسی اور کا نکلا تو اب وہ بیع صرف جو بائع اور مشتری کے بیچ میں ہوگئی تھی بالکل باطل ہو گئی ( تو اصل دینار پھر نا لازم ہوگا نہ کہ اس کے ثمن ( یعنی دس ہزرا اور ایک درہم ) اگر اس گھر میں کوئی عیب نکلا لیکن وہ بائع کے سوا کسی اور کی ملک نہیں نکلا تو خریدار اس گھر کو بائع کو واپس اور بیس ہزار درہم اس سے لے سکتا ہے ۔ حضرت امام بخاری نے کہا تو ان لوگوں نے مسلمانوں کے آپس میں مکروفریب کو جائز رکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے مسلمان کی بیع میں جو مسلمان کے ساتھ ہو نہ عیب ہونا چاہئیے( بیماری ) نہ خباثت نہ کوئی آفت
تشریح :
یہ حدیث کتاب البیوع میں غداءبن خادل کی روایت سے گزر چکی ہے ۔ امام بخاری نے اس مسئلہ میں ان بعض لوگوں پر دو اعتراض کئے ہیں ایک تو مسلمانوں کے آپس میں فریب اور دغا بازی کو جائز رکھنا دوسرے ترجیح بلا مرحج کہ استحقاق کی صورت میں تو مشتری صرف نو ہزرا نو سو ننانوے درہم اور ایک دینار پھیر سکتا ہے اور عیب کی صورت میں پورے بیس ہزار پھیر سکتا ہے۔ حالانکہ بیس ہزار اس نے دئیے ہی نہیں ۔ صحیح مذہب اس مسئلہ میں اہل حدیث کا ہے کہ مشتری عیب یا استحقاق ہر دو صورتوں میں بائغ سے وہی ثمن پھیر لے گا جو اس نے بائع کو دیا ہے یعنی نو ہزار نو سو نناونے درہم اور ایک درہم اور شفیع بھی اس قدر رقم دے کر اس جائداد کو مشتری سے لے سکتا ہے ۔
یہ حدیث کتاب البیوع میں غداءبن خادل کی روایت سے گزر چکی ہے ۔ امام بخاری نے اس مسئلہ میں ان بعض لوگوں پر دو اعتراض کئے ہیں ایک تو مسلمانوں کے آپس میں فریب اور دغا بازی کو جائز رکھنا دوسرے ترجیح بلا مرحج کہ استحقاق کی صورت میں تو مشتری صرف نو ہزرا نو سو ننانوے درہم اور ایک دینار پھیر سکتا ہے اور عیب کی صورت میں پورے بیس ہزار پھیر سکتا ہے۔ حالانکہ بیس ہزار اس نے دئیے ہی نہیں ۔ صحیح مذہب اس مسئلہ میں اہل حدیث کا ہے کہ مشتری عیب یا استحقاق ہر دو صورتوں میں بائغ سے وہی ثمن پھیر لے گا جو اس نے بائع کو دیا ہے یعنی نو ہزار نو سو نناونے درہم اور ایک درہم اور شفیع بھی اس قدر رقم دے کر اس جائداد کو مشتری سے لے سکتا ہے ۔