كِتَابُ الحِيَلِ بَابٌ فِي الهِبَةِ وَالشُّفْعَةِ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ الشَّرِيدِ قَالَ جَاءَ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى مَنْكِبِي فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ إِلَى سَعْدٍ فَقَالَ أَبُو رَافِعٍ لِلْمِسْوَرِ أَلَا تَأْمُرُ هَذَا أَنْ يَشْتَرِيَ مِنِّي بَيْتِي الَّذِي فِي دَارِي فَقَالَ لَا أَزِيدُهُ عَلَى أَرْبَعِ مِائَةٍ إِمَّا مُقَطَّعَةٍ وَإِمَّا مُنَجَّمَةٍ قَالَ أُعْطِيتُ خَمْسَ مِائَةٍ نَقْدًا فَمَنَعْتُهُ وَلَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْجَارُ أَحَقُّ بِصَقَبِهِ مَا بِعْتُكَهُ أَوْ قَالَ مَا أَعْطَيْتُكَهُ قُلْتُ لِسُفْيَانَ إِنَّ مَعْمَرًا لَمْ يَقُلْ هَكَذَا قَالَ لَكِنَّهُ قَالَ لِي هَكَذَا وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَبِيعَ الشُّفْعَةَ فَلَهُ أَنْ يَحْتَالَ حَتَّى يُبْطِلَ الشُّفْعَةَ فَيَهَبَ الْبَائِعُ لِلْمُشْتَرِي الدَّارَ وَيَحُدُّهَا وَيَدْفَعُهَا إِلَيْهِ وَيُعَوِّضُهُ الْمُشْتَرِي أَلْفَ دِرْهَمٍ فَلَا يَكُونُ لِلشَّفِيعِ فِيهَا شُفْعَةٌ
کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
باب : ہبہ پھیرلینے یا شفعہ کا حق ساقط کرنے کے لیے حیلہ کرنا مکروہ ہے
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابراہیم بن میسرہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے عمرو بن الشرید سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ عنہما آئے اور انہوں نے میرے مونڈھے پر اپنا ہاتھ رکھا پھر میں ان کے ساتھ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے یہاں گیا تو ابو رافع نے اس پر کہا کہ اس کا چار سو سے زیادہ میں دے سکتا اور وہ بھی قسطوں میں دو ںگا ۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ مجھے تو اس کے پانچ سو نقد مل رہے تھے اور میں نے انکار کردیا۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی زیادہ مستحق ہے تو میں اسے تمہیں نہ بیچتا ۔ علی بن عبد اللہ مدینی نے کہا میں نے سفیان بن عیینہ سے اس پر پوچھا کہ معمر نے اس طرح نہیں بیان کیا ہے ۔ سفیان نے کہا کہ لیکن مجھ سے تو ابراہیم بن میسرہ نے یہ حدیث اسی طرح نقل کی ۔
اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص چاہے کہ شفیع کو حق شفعہ نہ دے تو اسے حیلہ کرنے کی اجازت ہے اور حیلہ یہ ہے کہ جائداد کا مالک خریدار کو وہ جائداد ہبہ کردے پھر خریدار یعنی موہوب لہ اس ہبہ کے معاوضہ میں مالک جائداد کو ہزار درہم مثلاً ہبہ کردے اس صورت میں شفیع کو شفعہ کا حق نہ رہے گا
تشریح :
کیونکہ شفعہ بیع میں ہوتا ہے نہ کہ ہبہ میں ۔ ہم کہتے ہیں کہ ہبہ بالعوض بھی بیع کے حکم میں ہے تو شفیع کا حق شفعہ قائم رہنا چاہیے اور ایسا حیلہ کرنا بالکل نا جائز ہے ۔ اس میں مالک کی حق تلفی کا ارادہ کرنا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ایسے ہبہ سے جس میں کسی کا نقصان نظر آرہا ہے بیچیں اور ایسے ناجائز حیلوں سے دور رہیں اور اس حدیث پر عمل کریں جو بالکل واضح اور صاف ہے ۔
کیونکہ شفعہ بیع میں ہوتا ہے نہ کہ ہبہ میں ۔ ہم کہتے ہیں کہ ہبہ بالعوض بھی بیع کے حکم میں ہے تو شفیع کا حق شفعہ قائم رہنا چاہیے اور ایسا حیلہ کرنا بالکل نا جائز ہے ۔ اس میں مالک کی حق تلفی کا ارادہ کرنا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ایسے ہبہ سے جس میں کسی کا نقصان نظر آرہا ہے بیچیں اور ایسے ناجائز حیلوں سے دور رہیں اور اس حدیث پر عمل کریں جو بالکل واضح اور صاف ہے ۔