كِتَابُ الحِيَلِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الِاحْتِيَالِ فِي الفِرَارِ مِنَ الطَّاعُونِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّهُ سَمِعَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ يُحَدِّثُ سَعْدًا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ الْوَجَعَ فَقَالَ رِجْزٌ أَوْ عَذَابٌ عُذِّبَ بِهِ بَعْضُ الْأُمَمِ ثُمَّ بَقِيَ مِنْهُ بَقِيَّةٌ فَيَذْهَبُ الْمَرَّةَ وَيَأْتِي الْأُخْرَى فَمَنْ سَمِعَ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا يُقْدِمَنَّ عَلَيْهِ وَمَنْ كَانَ بِأَرْضٍ وَقَعَ بِهَا فَلَا يَخْرُجْ فِرَارًا مِنْهُ
کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
باب : طاعون سے بھاگنے کے لیے حیلہ کرنا منع ہے۔
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا ‘ ان سے زہری نے ‘ ان سے عامر ابن سعد بن ابی وقاص نے کہ انہوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل کررہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون کا ذکر کیا اور فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے جس کے ذریعہ بعض امتوں کو عذاب دیا گیا تھا اس کے بعد ا سکا کچھ حصہ باقی رہ گیا ہے اور وہ کبھی چلا جاتا ہے اور کبھی واپس آتاجا ہے ۔ پس جو شخص کسی سرزمین پر اس کے پھیلنے کے متعلق سنے تو وہاں نہ جائے لیکن اگر کوئی کسی جگہ ہو اور وہاں یہ وبا پھوٹ پڑے تو وہاں سے بھاگے بھی نہیں ۔
تشریح :
اس کا اصل سبب کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔ یونانی ہوگ جدوار خطائی سے ‘ ڈاکٹر لوگ ورم پر برف کا ٹکڑا رکھ کر اور بدوی لوگ داغ دے کر اس کا علا ج کرتے ہیں مگر موت سے شاذونادر ہی بچتے ہیں ۔ اس لیے مقام طاعون سے بھاگنا گویا موت سے بھاگنا ہے جو اپنے وقت پر ضرور آکر رہے گی ۔ مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ گھر یا محلہ بدلینا بستی چھوڑ کر پہاڑ پر چلے جانا تا کہ صاف آب وہوا مل سکے فرار میں داخل نہیں ہے ‘ واللہ اعلم بالصواب۔
اس کا اصل سبب کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔ یونانی ہوگ جدوار خطائی سے ‘ ڈاکٹر لوگ ورم پر برف کا ٹکڑا رکھ کر اور بدوی لوگ داغ دے کر اس کا علا ج کرتے ہیں مگر موت سے شاذونادر ہی بچتے ہیں ۔ اس لیے مقام طاعون سے بھاگنا گویا موت سے بھاگنا ہے جو اپنے وقت پر ضرور آکر رہے گی ۔ مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ گھر یا محلہ بدلینا بستی چھوڑ کر پہاڑ پر چلے جانا تا کہ صاف آب وہوا مل سکے فرار میں داخل نہیں ہے ‘ واللہ اعلم بالصواب۔