كِتَابُ الحِيَلِ بَابُ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ الْحَسَنِ وَعَبْدِ اللَّهِ ابْنَيْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِمَا أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قِيلَ لَهُ إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ لَا يَرَى بِمُتْعَةِ النِّسَاءِ بَأْسًا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهَا يَوْمَ خَيْبَرَ وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِنْ احْتَالَ حَتَّى تَمَتَّعَ فَالنِّكَاحُ فَاسِدٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ النِّكَاحُ جَائِزٌ وَالشَّرْطُ بَاطِلٌ
کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
باب
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے حسن اور عبداللہ بن محمد بن علی نے بیان کیا، ان سے وان کے والد نے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہاگیا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما عورگوں کے متعہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی لڑائی کے موقع پر متعہ سے اور پالتو گدھوں کے گوشت سے منع کردیا تھا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے حیلہ سے متعہ کرلیا تو نکاح فاسد ہے اور بعض لوگوں نے کہا کہ نکاح جائز ہوجائے گا اور میعاد کی شرط باطل ہوجائے گی۔
تشریح :
اس حدیث کو امام بخاری اس لیے لائے کہ متعہ کے باب میں جو ممانعت آئی ہے وہ اس لفظ سے ہے کہ نہی عن المتعہ اور شغار کی بھی ممانعت اسی لفظ سے ہے پھر ایک عقد کو صحیح کہنا اور دوسرے کو باطل کہنا جیسا کہ بعض الناس نے اختیار کیا ہے کیوں کہ صحیح ہوسکتا ہے۔ حافظ نے کہا کہ دونوں میں حنفیہ یہ فرق کرتے ہیں کہ شغار اپنی اصل سے مشروع ہے لیکن اپنی صفت سے فاسد ہے اور متعہ اپنی اصل ہی سے غیرمشروع ہے۔ شغار یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے کی بیٹی سے اس شرط پر نکاح کرے کہ اپنی بیٹی اس کو بیاہ دے گا۔ بس یہی ہردو کا مہر ہے اور کوئی مہر نہ ہو۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ کسی نے حیلہ سے نکاح شغار کرلیا تو نکاح کا عقد درست ہوجائے گا اور شرط لغو ہوگی ہر ایک کو مہر مثل عورت کا ادا کرنا ہوگا اور ان ہی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے متعہ میں یہ کہا ہے کہ وہی نکاح بھی فاسد ہے اور شرط بھی باطل ہے وہاں یوں نہیں کہا کہ نکاح صحیح ہے اور شرط باطل اور مہر مثل لازم ہوگا۔ بہ ظاہر یہ ترجیح بلامرجح ہے کیوں کہ متعہ اور شغار دونوں کی ممانعت یکساں حدیث سے ثابت ہے۔ بلکہ متعہ تو پہلے بعض حالات کی بنا پر حلال ہوا مگر شغار کبھی حلال نہیں ہوا اب متعہ قیامت تک کے لیے قطعاً حرام ہے۔ شغار یہ ہے کہ بلامہر آپس میں عورتوں کا تبادلہ کرنا کسی کو بلا مہر بیٹی دینا اور اس کی بیٹی بھی بلامہر لینا اوراس تبادلہ ہی کو مہر جاننا کہ اگر وہ اس کی بیٹی کو چھوڑے گا تو وہ دوسرا بھی چھوڑ دے گا۔ اس کو شبہہ کا نکاح کہتے ہیں، یہ قطعاً حرام ہے۔
اس حدیث کو امام بخاری اس لیے لائے کہ متعہ کے باب میں جو ممانعت آئی ہے وہ اس لفظ سے ہے کہ نہی عن المتعہ اور شغار کی بھی ممانعت اسی لفظ سے ہے پھر ایک عقد کو صحیح کہنا اور دوسرے کو باطل کہنا جیسا کہ بعض الناس نے اختیار کیا ہے کیوں کہ صحیح ہوسکتا ہے۔ حافظ نے کہا کہ دونوں میں حنفیہ یہ فرق کرتے ہیں کہ شغار اپنی اصل سے مشروع ہے لیکن اپنی صفت سے فاسد ہے اور متعہ اپنی اصل ہی سے غیرمشروع ہے۔ شغار یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے کی بیٹی سے اس شرط پر نکاح کرے کہ اپنی بیٹی اس کو بیاہ دے گا۔ بس یہی ہردو کا مہر ہے اور کوئی مہر نہ ہو۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ کسی نے حیلہ سے نکاح شغار کرلیا تو نکاح کا عقد درست ہوجائے گا اور شرط لغو ہوگی ہر ایک کو مہر مثل عورت کا ادا کرنا ہوگا اور ان ہی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے متعہ میں یہ کہا ہے کہ وہی نکاح بھی فاسد ہے اور شرط بھی باطل ہے وہاں یوں نہیں کہا کہ نکاح صحیح ہے اور شرط باطل اور مہر مثل لازم ہوگا۔ بہ ظاہر یہ ترجیح بلامرجح ہے کیوں کہ متعہ اور شغار دونوں کی ممانعت یکساں حدیث سے ثابت ہے۔ بلکہ متعہ تو پہلے بعض حالات کی بنا پر حلال ہوا مگر شغار کبھی حلال نہیں ہوا اب متعہ قیامت تک کے لیے قطعاً حرام ہے۔ شغار یہ ہے کہ بلامہر آپس میں عورتوں کا تبادلہ کرنا کسی کو بلا مہر بیٹی دینا اور اس کی بیٹی بھی بلامہر لینا اوراس تبادلہ ہی کو مہر جاننا کہ اگر وہ اس کی بیٹی کو چھوڑے گا تو وہ دوسرا بھی چھوڑ دے گا۔ اس کو شبہہ کا نکاح کہتے ہیں، یہ قطعاً حرام ہے۔