كِتَابُ الحِيَلِ بَابٌ فِي الزَّكَاةِ صحيح وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَا رَبُّ النَّعَمِ لَمْ يُعْطِ حَقَّهَا تُسَلَّطُ عَلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَتَخْبِطُ وَجْهَهُ بِأَخْفَافِهَا وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ فِي رَجُلٍ لَهُ إِبِلٌ فَخَافَ أَنْ تَجِبَ عَلَيْهِ الصَّدَقَةُ فَبَاعَهَا بِإِبِلٍ مِثْلِهَا أَوْ بِغَنَمٍ أَوْ بِبَقَرٍ أَوْ بِدَرَاهِمَ فِرَارًا مِنْ الصَّدَقَةِ بِيَوْمٍ احْتِيَالًا فَلَا بَأْسَ عَلَيْهِ وَهُوَ يَقُولُ إِنْ زَكَّى إِبِلَهُ قَبْلَ أَنْ يَحُولَ الْحَوْلُ بِيَوْمٍ أَوْ بِسِتَّةٍ جَازَتْ عَنْهُ
کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
باب : زکوٰۃ میں حیلہ کرنے کا بیان
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جانوروں کے مالک جنہوں نے ان کا شرعی حق ادا نہیں کیا ہوگا قیامت کے دن ان پر وہ جانور غالب کردےئے جائیں گے اور وہ اپنی کھروں سے اس کے چہرے کو نوچیں گے اور بعض لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اگر ایک شخص کے پاس اونٹ ہیں اور اسے خطرہ ہے کہ زکوٰۃ اس پر واجب ہوجائے گی اور اس لیے وہ کسی دن زکوٰۃ سے بچنے کے لیے حیلہ کے طور پر اسی جیسے اونٹ یا بکری یا گائے یا دراہم کے بدلے میں بیچ دے تو اس پر کوئی زکوٰۃ نہیں اور پھر اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے اونٹ کی زکوٰۃ سال پورے ہونے سے ایک دن یا ایک سال پہلے دے دے تو زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے۔
تشریح :
اس حدیث کو امام بخاری اس لیے لائے کہ زکوٰہ نہ دینے والے کی سزا اس میں مذکور ہے اور یہ عام ہے اس کو بھی شامل ہے جو کوئی حیلہ نکال کر زکوٰۃ اپنے اوپر سے ساقط کردے۔
حضرت امام بخاری کا مطلب بعض لوگوں کا تناقض ثابت کرنا ہے کہ آپ ہی تو زکوٰۃ کا دینا سال گزرنے سے پہلے درست جانتے ہیں اس سے یہ نکلتا ہے کہ زکوٰہ کا وجوب سال گزرنے سے پہلے ہی ہوجاتا ہے گو وجوب ادا سال گزرنے پر ہوتا ہے جب سال سے پہلے ہی زکوٰۃ کا وجوب ہوگیا تو اب مالک کا بدل ڈالنا اس کے لیے کیوں کر زکوٰۃ کو ساقط کردے گا۔ اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ ان سب صورتوں میں اس کے ذمہ سے زکوٰۃ ساقط نہ ہوگی اور ایسے حیلے بہانے کرنے کو اہل حدیث قطعاً حرام کہتے ہیں۔
مااہل حدیثیم و غارانہ شناسیم
صد شکر کہ در مذہب ماحیلہ و فن نیست
اس حدیث کو امام بخاری اس لیے لائے کہ زکوٰہ نہ دینے والے کی سزا اس میں مذکور ہے اور یہ عام ہے اس کو بھی شامل ہے جو کوئی حیلہ نکال کر زکوٰۃ اپنے اوپر سے ساقط کردے۔
حضرت امام بخاری کا مطلب بعض لوگوں کا تناقض ثابت کرنا ہے کہ آپ ہی تو زکوٰۃ کا دینا سال گزرنے سے پہلے درست جانتے ہیں اس سے یہ نکلتا ہے کہ زکوٰہ کا وجوب سال گزرنے سے پہلے ہی ہوجاتا ہے گو وجوب ادا سال گزرنے پر ہوتا ہے جب سال سے پہلے ہی زکوٰۃ کا وجوب ہوگیا تو اب مالک کا بدل ڈالنا اس کے لیے کیوں کر زکوٰۃ کو ساقط کردے گا۔ اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ ان سب صورتوں میں اس کے ذمہ سے زکوٰۃ ساقط نہ ہوگی اور ایسے حیلے بہانے کرنے کو اہل حدیث قطعاً حرام کہتے ہیں۔
مااہل حدیثیم و غارانہ شناسیم
صد شکر کہ در مذہب ماحیلہ و فن نیست