‌صحيح البخاري - حدیث 6939

كِتَابُ اسْتِتَابَةِ المُرْتَدِّينَ وَالمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ بَابُ مَا جَاءَ فِي المُتَأَوِّلِينَ صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ فُلَانٍ قَالَ تَنَازَعَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَحِبَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ لِحِبَّانَ لَقَدْ عَلِمْتُ مَا الَّذِي جَرَّأَ صَاحِبَكَ عَلَى الدِّمَاءِ يَعْنِي عَلِيًّا قَالَ مَا هُوَ لَا أَبَا لَكَ قَالَ شَيْءٌ سَمِعْتُهُ يَقُولُهُ قَالَ مَا هُوَ قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالزُّبَيْرَ وَأَبَا مَرْثَدٍ وَكُلُّنَا فَارِسٌ قَالَ انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ حَاجٍ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ هَكَذَا قَالَ أَبُو عَوَانَةَ حَاجٍ فَإِنَّ فِيهَا امْرَأَةً مَعَهَا صَحِيفَةٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَأْتُونِي بِهَا فَانْطَلَقْنَا عَلَى أَفْرَاسِنَا حَتَّى أَدْرَكْنَاهَا حَيْثُ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسِيرُ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا وَقَدْ كَانَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ بِمَسِيرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فَقُلْنَا أَيْنَ الْكِتَابُ الَّذِي مَعَكِ قَالَتْ مَا مَعِي كِتَابٌ فَأَنَخْنَا بِهَا بَعِيرَهَا فَابْتَغَيْنَا فِي رَحْلِهَا فَمَا وَجَدْنَا شَيْئًا فَقَالَ صَاحِبَايَ مَا نَرَى مَعَهَا كِتَابًا قَالَ فَقُلْتُ لَقَدْ عَلِمْنَا مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ حَلَفَ عَلِيٌّ وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَأُجَرِّدَنَّكِ فَأَهْوَتْ إِلَى حُجْزَتِهَا وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ فَأَخْرَجَتْ الصَّحِيفَةَ فَأَتَوْا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ دَعْنِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا حَاطِبُ مَا حَمَلكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لِي أَنْ لَا أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَلَكِنِّي أَرَدْتُ أَنْ يَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يُدْفَعُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي وَلَيْسَ مِنْ أَصْحَابِكَ أَحَدٌ إِلَّا لَهُ هُنَالِكَ مِنْ قَوْمِهِ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ قَالَ صَدَقَ لَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا قَالَ فَعَادَ عُمَرُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ دَعْنِي فَلِأَضْرِبْ عُنُقَهُ قَالَ أَوَلَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ أَوْجَبْتُ لَكُمْ الْجَنَّةَ فَاغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ خَاخٍ أَصَحُّ وَلَكِنْ كَذَا قَالَ أَبُو عَوَانَةَ حَاجٍ وَحَاجٍ تَصْحِيفٌ وَهُوَ مَوْضِعٌ وَهُشَيْمٌ يَقُولُ خَاخٍ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 6939

کتاب: باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے کا بیان باب: تاویل کرنے والوں کے بارے میں بیان ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ وضاح شکری نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمن سلمی نے، ان سے فلاں شخص( سعید بن عبیدہ) نے کہ ابوعبدالرحمن اور حبان بن عطیہ کا آپس میں اختلاف ہوا۔ ابوعبدالرحمن نے حبان سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے ساتھی خون بہانے میں کس قدر جری ہوگئے ہیں۔ ان کا اشارہ علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھا اس پ رحبان نے کہا انہوں نے کیا کیا ہے تیرا باپ نہیں۔ ابوعبدالرحمن نے کہا کہ علی کہتے تھے کہ مجھے، زبیر اور ابومرثد رضی اللہ عنہم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا اور ہم سب گھوڑوں پر سوار تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اور جب روضہ خاخ پر پہنچو( جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ ہے) ابوسلمہ نے بیان کیا کہ ابوعوانہ نے خاخ کے بدلے حاج کہا ہے۔ تو وہاں تمہیں ایک عورت( سارہ نامی) ملے گی اور اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو مشرکین مکہ کو لکھاگیا ہے تم وہ خط میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ ہم اپنے گھوڑوں پر دوڑے اور ہم نے اسے وہیں پکڑا جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا۔ وہ عورت اپنے اونٹ پر سوارجارہی تھی حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے اہل مکہ کو آنحضرت کی مکہ کو آنے کی خبردی تھی۔ ہم نے اس عورت سے کہا کہ تمہارے پاس وہ خط کہاں ہے اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے ہم نے اس کا اونٹ بٹھادیا اور اس کے کجاوہ کی تلاشی لی لیکن اس میں کوئی خط نہیں ملا۔ میرے ساتھی نے کہا کہ اس کے پاس کوئی خط نہیں معلوم ہوتا۔ راوی نے بیان کیا کہ ہمیں یقین ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غلط بات نہیں فرمائی پھر علی رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ اس ذات کی قسم جس کی قسم کھائی جاتی ہے خط نکال دے ورنہ میں تجھے ننگی کروں گا اب وہ عورت اپنے نیفے کی طرف جھکی اس نے ایک چادر کمر پر باندھ رکھی تھی اور خط نکالا۔ اس کے بعد یہ لوگ خط آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ہے، مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن ماردوں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ حاطب! تم نے ایسا کیوں کیا؟ حاطب رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! بھلا کیا مجھ سے یہ ممکن ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ رکھوں میرا مطلب اس خط کے لکھنے سے صرف یہ تھا کہ میرا ایک احسان مکہ والوں پر ہوجائے جس کی وجہ سے میں اپنی جائیداد اور بال بچوں کو( ان کے ہاتھ سے) بچالوں۔ بات یہ ہے کہ آپ کے اصحاب میں کوئی ایسا نہیں جس کے مکہ مے ں ان کی قوم میں کے ایسے لوگ نہ ہوں جس کی وجہ سے اللہ ان کے بچوں اور جائیداد پر کوئی آفت نہیں آنے دیتا۔ مگر میرا وہاں کوئی نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا ہے۔ بھلائی کے سوا ان کے بارے میں اور کچھ نہ کہو۔ بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نے اللہ اوراس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی ہے۔ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن ماردوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ جنگ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے نہیں ہیں؟ تمہیں کیا معلوم اللہ تعالیٰ ان کے اعمال سے واقف تھا اور پھر فرمایا کہ جو چاہو کرو میں نے جنت تمہارے لیے لکھ دی ہے اس پر عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں( خوشی سے) آنسو بھرآئے اور عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی کو حقیقت کا زیادہ علم ہے۔ ابوعبداللہ ( حضرت امام بخاری) نے کہا کہ ” خاخ“ زیادہ صحیح ہے لیکن ابوعوانہ نے حاج ہی بیان کیا ہے اور لفظ حاج بدلا ہوا ہے یہ ایک جگہ کا نام ہے اور ہیثم نے ” خاخ“ بیان کیا ہے۔
تشریح : یہ حدیث کئی بار اوپر گزر چکی ہے۔ باب کا مطلب اس طرح نکلا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے نزدیک حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو خائن سمجھا۔ ایک روایت کی بناپر ان کو منافق بھی کہا مگر چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایسا خیال کرنے کی ایک وجہ تھی یعنی ان کا خط پکڑا جانا جس میں اپنی قوم کا نقصان تھا تو گویا وہ تاویل کرنے والے تھے اور اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کوئی مواخذہ نہیں کیا۔ اب یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ایک بار جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب کی نسبت یہ فرمایا کہ وہ سچا ہے تو پھر دوبارہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مارڈالنے کی اجازت کیوں کر چاہی اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت کی رائے ملکی اور شرعی قانون ظاہری پر تھی جو شخص اپنے بادشاہ اپنی قوم کا راز دشمنوں پر ظاہر کرے اس کی سزا موت ہے اور ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے سے کہ وہ سچا ہے ان کی پوری تشفی نہیں ہوئی کیوں کہ سچا ہونے کی صورت میں بھی ان کا عذر اس قابل نہ تھا کہ اس جرم کی سزا سے وہ بری ہوجاتے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہ فرمایا کہ اللہ نے بدریوں کے سب قصور معاف فرمادیئے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تسلی ہوگئی اور اپنا خیال انہوں نے چھوڑدیا اس سے بدری صحابہ کے جنتی ہونے کا اثبات ہوا۔ لفظ لاابالک عربوں کے محاورہ میں اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی شخص ایک عجیب بات کہتا ہے مطلب یہ ہوتا ہے کہ تیرا کوئی ادب سکھانے والا باپ نہ تھا جب ہی تو بے ادب رہ گیا۔ ابوعبدالرحمن عثمانی تھے اور حبان بن عطیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طرف دارتھے۔ ابوعبدالرحمن کا یہ کہنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت صحیح نہ تھا کہ وہ بے وجہ شرعی مسلمانوں کی خونریزی کرتے ہیں۔ انہوں نے جو کچھ کہا حکم شرعی کے تحت کہا ابوعبدالرحمن کو یہ بدگمانی یوں ہوئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت سنائی تھی کہ جنگ بدر میں شرکت کرنے والے بخشے ہوئے ہیں اللہ پاک نے بدریوں سے فرمادیا کہ اِعمَلُوا مَاشِئتُم فَقَد اَوجَبتُ لَکُمُ الجَنَّۃِ تم جو چاہو عمل کرو میں تمہارے لیے جنت واجب کرچکا ہوں چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی بدری ہیں اس لیے اب وہ اس بشارت خدائی کے پیش نظر خون ریزی کرنے میں جری ہوگئے ہیں۔ ابوعبدالرحمن کا یہ گمان صحیح نہ تھا ناحق خون ریزی کرنا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بالکل بعید تھا۔ جو کچھ انہوں نے کیا شریعت کے تحت کیا یوں بشری لغزش امر دیگر ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ابوطالب کے بیٹے ہیں، نوجوانوں میں اولین اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ عمر دس سال یا پندرہ سال کی تھی۔ جنگ تبوک کے سوا سب جنگوںمیں شریک ہوئے۔ گندم گوں، بڑی بڑی آنکھوں والے، درمیانہ قد، بہت بال والے، چوڑی داڑھی والے، سر کے اگلے حصہ میں بال نہ تھے۔ جمعہ کے دن 18ذی الحجہ 35 ھ کو خلیفہ ہوئے یہی شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کا دن ہے۔ ایک خارجی عبدالرحمن بن ملجم مرادی نے18رمضان بوقت صبح بروز جمعہ 40ھ میں آپ کو شہید کیا۔ زخمی ہونے کے بعد تین رات زندہ رہے، 63سال کی عمر پائی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم اجمعین نے نہلایا اور حضرت حسن نے نماز جنازہ پڑھائی۔ صبح کے وقت دفن کئے گئے۔ مدت خلافت چار سال نو ماہ اور کچھ دن ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ رابع برحق ہیں۔ بہت ہی بڑے دانش مند اسلام کے جرنیل، بہادر اور صاحب مناقب کثیرہ ہیں آپ کی محبت جزوایمان ہے۔ تینوں خلافتوں میں ان کا بڑا مقام رہا۔ بہت صائب الرائے اور عالم و فاضل تھے۔ صدافسوس کہ آپ کی ذات گرامی کو آڑ بناکر ایک یہودی عبداللہ بن سبا نے امت مسلمہ میں خانہ جنگی و فتنہ و فساد کو جگہ دی۔ یہ محض مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے بظاہر مسلمان ہوگیا تھا۔ اس نے یہ فتنہ کھڑا کیا کہ خلافت کے وصی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں، حضرت عثمان ناحق خلیفہ بن بیٹھے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت کے لیے حضرت علی کو اپنا وصی بناگئے ہیں، لہٰذا خلافت صرف حضرت علی ہی کا حق ہے۔ عبداللہ بن سبا نے یہ ایسی من گھڑت بات ایجاد کی تھی جس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد میں خلافت صدیقی و فاروقی و عثمانی میں کوئی ذکر نہیں تھا مگر نام چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے عالی منقبت کا تھا اس لیے کتنے سادہ لوح لوگوں پر اس یہودی کا یہ جادو چل گیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اندوہناک واقعہ اسی فتنہ کی بنا پر ہوا۔ آپ بیاسی سال کی عمر میں 18ذی الحجہ 35ھ کو جبکہ آپ قرآن شریف کی آیت فَسَےَکفِےکَہُمُ اﷲ پر پہنچے تھے کہ نہایت بے دردی سے شہید کئے گئے اور آپ کے خون کی دھار قرآن پاک کے ورق پر اسی آیت کی جگہ جاکر پڑی۔ رضی اللہ عنہ۔ الحمد للہ حرمین شریفین کے سفر میں تین بار آپ کی قبر پر دعائے مسنون پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ اللہ پاک قیامت کے دن ان سب بزرگوں کی زیارت نصیب کرے آمین۔ شہادت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے امت کا نظام ایسا منتشر ہوا جو آج تک قائم ہے اور شاید قیامت تک بھی نہ ختم ہو------فلیبک علی الاسلام من کان باکیا۔ یہ حدیث کئی بار اوپر گزر چکی ہے۔ باب کا مطلب اس طرح نکلا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے نزدیک حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو خائن سمجھا۔ ایک روایت کی بناپر ان کو منافق بھی کہا مگر چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایسا خیال کرنے کی ایک وجہ تھی یعنی ان کا خط پکڑا جانا جس میں اپنی قوم کا نقصان تھا تو گویا وہ تاویل کرنے والے تھے اور اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کوئی مواخذہ نہیں کیا۔ اب یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ایک بار جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب کی نسبت یہ فرمایا کہ وہ سچا ہے تو پھر دوبارہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مارڈالنے کی اجازت کیوں کر چاہی اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت کی رائے ملکی اور شرعی قانون ظاہری پر تھی جو شخص اپنے بادشاہ اپنی قوم کا راز دشمنوں پر ظاہر کرے اس کی سزا موت ہے اور ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے سے کہ وہ سچا ہے ان کی پوری تشفی نہیں ہوئی کیوں کہ سچا ہونے کی صورت میں بھی ان کا عذر اس قابل نہ تھا کہ اس جرم کی سزا سے وہ بری ہوجاتے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہ فرمایا کہ اللہ نے بدریوں کے سب قصور معاف فرمادیئے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تسلی ہوگئی اور اپنا خیال انہوں نے چھوڑدیا اس سے بدری صحابہ کے جنتی ہونے کا اثبات ہوا۔ لفظ لاابالک عربوں کے محاورہ میں اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی شخص ایک عجیب بات کہتا ہے مطلب یہ ہوتا ہے کہ تیرا کوئی ادب سکھانے والا باپ نہ تھا جب ہی تو بے ادب رہ گیا۔ ابوعبدالرحمن عثمانی تھے اور حبان بن عطیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طرف دارتھے۔ ابوعبدالرحمن کا یہ کہنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت صحیح نہ تھا کہ وہ بے وجہ شرعی مسلمانوں کی خونریزی کرتے ہیں۔ انہوں نے جو کچھ کہا حکم شرعی کے تحت کہا ابوعبدالرحمن کو یہ بدگمانی یوں ہوئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت سنائی تھی کہ جنگ بدر میں شرکت کرنے والے بخشے ہوئے ہیں اللہ پاک نے بدریوں سے فرمادیا کہ اِعمَلُوا مَاشِئتُم فَقَد اَوجَبتُ لَکُمُ الجَنَّۃِ تم جو چاہو عمل کرو میں تمہارے لیے جنت واجب کرچکا ہوں چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی بدری ہیں اس لیے اب وہ اس بشارت خدائی کے پیش نظر خون ریزی کرنے میں جری ہوگئے ہیں۔ ابوعبدالرحمن کا یہ گمان صحیح نہ تھا ناحق خون ریزی کرنا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بالکل بعید تھا۔ جو کچھ انہوں نے کیا شریعت کے تحت کیا یوں بشری لغزش امر دیگر ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ابوطالب کے بیٹے ہیں، نوجوانوں میں اولین اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ عمر دس سال یا پندرہ سال کی تھی۔ جنگ تبوک کے سوا سب جنگوںمیں شریک ہوئے۔ گندم گوں، بڑی بڑی آنکھوں والے، درمیانہ قد، بہت بال والے، چوڑی داڑھی والے، سر کے اگلے حصہ میں بال نہ تھے۔ جمعہ کے دن 18ذی الحجہ 35 ھ کو خلیفہ ہوئے یہی شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کا دن ہے۔ ایک خارجی عبدالرحمن بن ملجم مرادی نے18رمضان بوقت صبح بروز جمعہ 40ھ میں آپ کو شہید کیا۔ زخمی ہونے کے بعد تین رات زندہ رہے، 63سال کی عمر پائی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم اجمعین نے نہلایا اور حضرت حسن نے نماز جنازہ پڑھائی۔ صبح کے وقت دفن کئے گئے۔ مدت خلافت چار سال نو ماہ اور کچھ دن ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ رابع برحق ہیں۔ بہت ہی بڑے دانش مند اسلام کے جرنیل، بہادر اور صاحب مناقب کثیرہ ہیں آپ کی محبت جزوایمان ہے۔ تینوں خلافتوں میں ان کا بڑا مقام رہا۔ بہت صائب الرائے اور عالم و فاضل تھے۔ صدافسوس کہ آپ کی ذات گرامی کو آڑ بناکر ایک یہودی عبداللہ بن سبا نے امت مسلمہ میں خانہ جنگی و فتنہ و فساد کو جگہ دی۔ یہ محض مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے بظاہر مسلمان ہوگیا تھا۔ اس نے یہ فتنہ کھڑا کیا کہ خلافت کے وصی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں، حضرت عثمان ناحق خلیفہ بن بیٹھے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت کے لیے حضرت علی کو اپنا وصی بناگئے ہیں، لہٰذا خلافت صرف حضرت علی ہی کا حق ہے۔ عبداللہ بن سبا نے یہ ایسی من گھڑت بات ایجاد کی تھی جس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد میں خلافت صدیقی و فاروقی و عثمانی میں کوئی ذکر نہیں تھا مگر نام چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے عالی منقبت کا تھا اس لیے کتنے سادہ لوح لوگوں پر اس یہودی کا یہ جادو چل گیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اندوہناک واقعہ اسی فتنہ کی بنا پر ہوا۔ آپ بیاسی سال کی عمر میں 18ذی الحجہ 35ھ کو جبکہ آپ قرآن شریف کی آیت فَسَےَکفِےکَہُمُ اﷲ پر پہنچے تھے کہ نہایت بے دردی سے شہید کئے گئے اور آپ کے خون کی دھار قرآن پاک کے ورق پر اسی آیت کی جگہ جاکر پڑی۔ رضی اللہ عنہ۔ الحمد للہ حرمین شریفین کے سفر میں تین بار آپ کی قبر پر دعائے مسنون پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ اللہ پاک قیامت کے دن ان سب بزرگوں کی زیارت نصیب کرے آمین۔ شہادت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے امت کا نظام ایسا منتشر ہوا جو آج تک قائم ہے اور شاید قیامت تک بھی نہ ختم ہو------فلیبک علی الاسلام من کان باکیا۔