‌صحيح البخاري - حدیث 6934

كِتَابُ اسْتِتَابَةِ المُرْتَدِّينَ وَالمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ بَابُ مَنْ تَرَكَ قِتَالَ الخَوَارِجِ لِلتَّأَلُّفِ، وَأَنْ لاَ يَنْفِرَ النَّاسُ عَنْهُ صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ حَدَّثَنَا يُسَيْرُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ قُلْتُ لِسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي الْخَوَارِجِ شَيْئًا قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ وَأَهْوَى بِيَدِهِ قِبَلَ الْعِرَاقِ يَخْرُجُ مِنْهُ قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الْإِسْلَامِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنْ الرَّمِيَّةِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 6934

کتاب: باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے کا بیان باب: دل ملانے کے لیے کسی مصلحت سے کہ لوگوں کو نفرت نہ پیدا ہوخارجیوں کو نہ قتل کرنا ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیادہ نے، کہا ہم سے سلمان شیبانی نے، کہا ہم سے یسیر بن عمرو نے بیان کیا کہ میں نے سہل بن حنیف( بدری صحابی) رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوارج کے سلسلے میں کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے اور آپ نے عراق کی طرف ہاتھ سے اشارہ فرمایا تھا کہ ادھر سے ایک جماعت نکلے گی یہ لوگ قرآن مجید پڑھیں گے لیکن قرآن مجید ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترےگا۔ وہ اسلام سے اس طرح باہر ہوجائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے باہر نکل جاتا ہے۔
تشریح : امام مسلم نے حضرت ابوذر سے روایت کیا خارجی تمام مخلوقات میں بدتر ہیں اور بزار نے مرفوعاً نکالا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خارجیوں کا ذکر کیا۔ فرمایا میری امت میں بدترین لوگ ہوں ان کو میری امت کے اچھے لوگ قتل کریں گے۔ خارجی ایک مشہور فرقہ ہے جس کی ابتداءحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری زمانہ خلافت سے ہوئی۔ یہ لوگ ظاہر میں بڑے عابد زاہد قاری قرآن تھے مگر دل میں ذرا بھی قرآن کا نور نہ تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو یہ لوگ شروع شروع میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے۔ جب جنگ صفین ہوچکی اور تحکیم کی رائے قرار پائی اس وقت یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی الگ ہوگئے۔ ان کو براکہنے لگے کہ انہوں نے تحکیم کیسے قبول کی۔ حالانکہ اللہ نے فرمایا ہے ” ان الحکم الا اﷲ “ ( الانعام: 57 ) ان کا سردار عبداللہ بن کوا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو سمجھانے کے لیے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو بھیجا اور خود بھی سمجھایا مگر انہوں نے نہ مانا۔ آخر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہروان کی جنگ میں ان کو قتل کیا۔ چند لوگ بچ کر بھاگ نکلے۔ ان ہی میں ایک عبدالرحمن بن ملجم تھا جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کیا۔ یہ خارجی کمبخت حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت عائشہ اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرتے ہیں اور کبیرہ گناہ کرنیو الے کو ہمیشہ کے لیے دوزخی کہتے ہیں اور حیض کی حالت میں عورت پر نماز کی قضا واجب جانتے ہیں۔ قرآن کی تفسیر اپنے دل سے کرتے ہیں اور جو آیات کافروں کے باب میں تھیں وہ مومنوں پر چسپاں کرتے ہیں۔ لفظ خارجی کے مرادی معنی باغی کے ہیں یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بغاوت کرنے والے یہ درحقیقت رافضیوں کے مقابلہ پر پیدا ہوکر امت کے انتشار درانتشار کے موجب بنے۔ خذلہم اللہ اجمعین ان جملہ جھگڑوں سے بچ کر صراط مستقیم پر چلنے والا گروہ اہل سنت والجماعت کا گروہ ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہردو کی عزت کرتا ہے اور ان سب کی بخشش کے لیے دعا گو ہے۔ تلک امۃ قدخلت لہا ماکسبت ولکم ماکسبتم۔ ( البقرۃ: 134 ) امام مسلم نے حضرت ابوذر سے روایت کیا خارجی تمام مخلوقات میں بدتر ہیں اور بزار نے مرفوعاً نکالا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خارجیوں کا ذکر کیا۔ فرمایا میری امت میں بدترین لوگ ہوں ان کو میری امت کے اچھے لوگ قتل کریں گے۔ خارجی ایک مشہور فرقہ ہے جس کی ابتداءحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری زمانہ خلافت سے ہوئی۔ یہ لوگ ظاہر میں بڑے عابد زاہد قاری قرآن تھے مگر دل میں ذرا بھی قرآن کا نور نہ تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو یہ لوگ شروع شروع میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے۔ جب جنگ صفین ہوچکی اور تحکیم کی رائے قرار پائی اس وقت یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی الگ ہوگئے۔ ان کو براکہنے لگے کہ انہوں نے تحکیم کیسے قبول کی۔ حالانکہ اللہ نے فرمایا ہے ” ان الحکم الا اﷲ “ ( الانعام: 57 ) ان کا سردار عبداللہ بن کوا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو سمجھانے کے لیے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو بھیجا اور خود بھی سمجھایا مگر انہوں نے نہ مانا۔ آخر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہروان کی جنگ میں ان کو قتل کیا۔ چند لوگ بچ کر بھاگ نکلے۔ ان ہی میں ایک عبدالرحمن بن ملجم تھا جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کیا۔ یہ خارجی کمبخت حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت عائشہ اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرتے ہیں اور کبیرہ گناہ کرنیو الے کو ہمیشہ کے لیے دوزخی کہتے ہیں اور حیض کی حالت میں عورت پر نماز کی قضا واجب جانتے ہیں۔ قرآن کی تفسیر اپنے دل سے کرتے ہیں اور جو آیات کافروں کے باب میں تھیں وہ مومنوں پر چسپاں کرتے ہیں۔ لفظ خارجی کے مرادی معنی باغی کے ہیں یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بغاوت کرنے والے یہ درحقیقت رافضیوں کے مقابلہ پر پیدا ہوکر امت کے انتشار درانتشار کے موجب بنے۔ خذلہم اللہ اجمعین ان جملہ جھگڑوں سے بچ کر صراط مستقیم پر چلنے والا گروہ اہل سنت والجماعت کا گروہ ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہردو کی عزت کرتا ہے اور ان سب کی بخشش کے لیے دعا گو ہے۔ تلک امۃ قدخلت لہا ماکسبت ولکم ماکسبتم۔ ( البقرۃ: 134 )