كِتَابُ اسْتِتَابَةِ المُرْتَدِّينَ وَالمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ بَابُ إِذَا عَرَّضَ الذِّمِّيُّ وَغَيْرُهُ بِسَبِّ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يُصَرِّحْ، نَحْوَ قَوْلِهِ: السَّامُ عَلَيْكَ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ اسْتَأْذَنَ رَهْطٌ مِنْ الْيَهُودِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا السَّامُ عَلَيْكَ فَقُلْتُ بَلْ عَلَيْكُمْ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ فَقَالَ يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّهِ قُلْتُ أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا قَالَ قُلْتُ وَعَلَيْكُمْ
کتاب: باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے کا بیان باب: اگر ذمی کافر اشارے کنائے میں آنحضرت ﷺ کو برا کہے صاف نہ کہے جیسے یہود آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ( السلام علیکم کے بدلے) السام علیک کہا کرتے تھے۔ ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے سفیان بن عیینہ سے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انہوں نے کہا یہود میں سے چند لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت چاہی جب آئے تو کہنے لگے السام علیک میں نے جواب میں یوں کہا علیک السام واللعنۃ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! اللہ تعالیٰ نرمی کرتا ہے اور ہر کام میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! کیا آپ نے ان کا کہنا نہیں سنا آپ نے فرمایا میں نے بھی تو جواب دے دیا وعلیکم۔