كِتَابُ اسْتِتَابَةِ المُرْتَدِّينَ وَالمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ بَابُ حُكْمِ المُرْتَدِّ وَالمُرْتَدَّةِ وَاسْتِتَابَتِهِمْ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ قَالَ أُتِيَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِزَنَادِقَةٍ فَأَحْرَقَهُمْ فَبَلَغَ ذَلِكَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ لَوْ كُنْتُ أَنَا لَمْ أُحْرِقْهُمْ لِنَهْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ وَلَقَتَلْتُهُمْ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ
کتاب: باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے کا بیان
باب: مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل سدوسی نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے، انہوں نے ایوب سختیانی سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے کہا علی رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ بے دین لوگ لائے گئے۔ آپ نے ان کو جلوادیا۔ یہ خبر ابن عباس رضی اللہ عنہما کو پہنچی تو انہوں نے کہا اگر میں حاکم ہوتا تو ان کو کبھی نہ جلواتا( دوسری طرح سے سزا دیتا) کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ میں جلانے سے منع فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آگ اللہ کا عذاب ہے تم اللہ کے عذاب سے کسی کو مت عذاب دو میں ان کو قتل کرواڈالتا کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص اپنا دین بدل ڈالے اسلام سے پھر جائے اس کو قتل کرڈالو۔
تشریح :
ایسے مذکورہ لوگوں کو عربی میں زندیق کہتے ہیں جیسے نیچری طبعی دہری وغیرہ جو خدا کے قائل نہیں ہیں یا جو شریعت اور دین کو مذاق سمجھتے ہیں جہاں جیسا موقع ہوا ویسے بن گئے۔ مسلمانوں میں مسلمان، ہندوؤں میں ہندو، نصاریٰ میں نصرانی۔ بعضوں نے کہا یہ لوگ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے لائے گئے تھے سبائی فرقہ کے تھے جن کا رئیس عبداللہ بن سبا ایک یہودی تھا جو بظاہر مسلمان ہوگیا تھا لیکن دل میں مسلمانوں کو تباہ و برباد اور گمراہ کرنا اس کو منظور تھا اس نے ان لوگوں کو یہ سمجھایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خدا کے اوتار ہیں جیسے ہندومشرک سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں آدمی یا جانور کے بھیس میں آتا ہے اور اس کو اوتار کہتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب ان لوگوں کے اعتقاد پر مطلع ہوئے تو ان کو گرفتار کیا اور آگ میں جلوادیا۔ لعنہم اﷲ
ایسے مذکورہ لوگوں کو عربی میں زندیق کہتے ہیں جیسے نیچری طبعی دہری وغیرہ جو خدا کے قائل نہیں ہیں یا جو شریعت اور دین کو مذاق سمجھتے ہیں جہاں جیسا موقع ہوا ویسے بن گئے۔ مسلمانوں میں مسلمان، ہندوؤں میں ہندو، نصاریٰ میں نصرانی۔ بعضوں نے کہا یہ لوگ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے لائے گئے تھے سبائی فرقہ کے تھے جن کا رئیس عبداللہ بن سبا ایک یہودی تھا جو بظاہر مسلمان ہوگیا تھا لیکن دل میں مسلمانوں کو تباہ و برباد اور گمراہ کرنا اس کو منظور تھا اس نے ان لوگوں کو یہ سمجھایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خدا کے اوتار ہیں جیسے ہندومشرک سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں آدمی یا جانور کے بھیس میں آتا ہے اور اس کو اوتار کہتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب ان لوگوں کے اعتقاد پر مطلع ہوئے تو ان کو گرفتار کیا اور آگ میں جلوادیا۔ لعنہم اﷲ