كِتَابُ اسْتِتَابَةِ المُرْتَدِّينَ وَالمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ بَابُ قالَ اللہُ تَعَالٰی صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ شَقَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالُوا أَيُّنَا لَمْ يَلْبِسْ إِيمَانَهُ بِظُلْمٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ لَيْسَ بِذَاكَ أَلَا تَسْمَعُونَ إِلَى قَوْلِ لُقْمَانَ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
کتاب: باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے کا بیان
باب: اللہ تعالیٰ نے سورۃ لقمان میں فرمایا
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو جریر بن عبدالحمید نے، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے علقمہ سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے کہا جب( سورۃ انعام کی) یہ آیت اتری ” جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ایمان کو گناہ سے آلود نہیں کیا( یعنی ظلم سے) “ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو بہت گراں گزری وہ کہنے لگے بھلا ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے ایمان کے ساتھ کوئی ظلم( یعنی گناہ) نہ کیا ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس آیت میں ظلم سے گناہ مراد نہیں ہے( بلکہ شرک مراد ہے) کیا تم نے حضرت لقمان علیہ السلام کا قول نہیں سنا ” شرک بڑا ظلم ہے“ ۔
تشریح :
معلوم ہوا کہ شرک صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی بے ایمان ہو، خدا کا منکر ہو یا دو خداؤں کا قائل ہو بلکہ کبھی ایمان کے ساتھ بھی آدمی شرک میں آلودہ ہوجاتا ہے جیسے دوسری آیت میں وما یومن اکثرہم باﷲ الا وہم مشرکون۔ ( یوسف: 106 ) قاضی عیاض نے کہا ایمان کا شرک سے آلودہ کرنا یہ ہے کہ اللہ کا قائل ہو ( اس کی توحید مانتا ہو ) مگر عبادت میں اوروں کو بھی شریک کرے۔ مترجم کہنا ہے جیسے ہمارے زمانہ کے گور ( قبر ) پرستوں اور پیر پرستوں کا حال ہے اللہ کو مانتے ہیں پھر اللہ کے ساتھ اوروں کی بھی عبادت کرتے ہیں، ان کی نذر و نیاز منت مانتے ہیں، ان کے نام پر جانور کاٹتے ہیں، دکھ، بیماری میں ان کو پکارتے ہیں، ان کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں، ان کی قبروں پر جاکر سجدہ اور طواف کرتے ہیں، ان سے وسعت رزق یا اولاد یا شفاءطلب کرتے ہیں۔ یہ سب لوگ فی الحقیقت مشرک ہیں۔ گونام کے مسلمان کہلائیں تو کیا ہوتا ہے۔ ایسا ظاہری برائے نام اسلام آخرت میں کچھ کام نہیں آئے گا۔ عرب کے مشرک بھی اللہ کو مانتے تھے۔ خالق آسمان و زمین اسی کو جانتے تھے مگر غیرخدا کی عبادت اور تعظیم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو مشرک قرار دیا۔ اگر تم قرآن شریف کا ترجمہ خوب سمجھ کر پڑھو تو شرک کا مطلب اچھی طرح سمجھ لوگے مگر افسوس تو یہ ہے کہ تم ساری عمر میں ایک بار بھی قرآن اول سے لے کرآخر تک سمجھ کر نہیں پڑھتے، صرف اس کے الفاظ رٹ لیتے ہیں اس سے کام نہیں چلتا۔
معلوم ہوا کہ شرک صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی بے ایمان ہو، خدا کا منکر ہو یا دو خداؤں کا قائل ہو بلکہ کبھی ایمان کے ساتھ بھی آدمی شرک میں آلودہ ہوجاتا ہے جیسے دوسری آیت میں وما یومن اکثرہم باﷲ الا وہم مشرکون۔ ( یوسف: 106 ) قاضی عیاض نے کہا ایمان کا شرک سے آلودہ کرنا یہ ہے کہ اللہ کا قائل ہو ( اس کی توحید مانتا ہو ) مگر عبادت میں اوروں کو بھی شریک کرے۔ مترجم کہنا ہے جیسے ہمارے زمانہ کے گور ( قبر ) پرستوں اور پیر پرستوں کا حال ہے اللہ کو مانتے ہیں پھر اللہ کے ساتھ اوروں کی بھی عبادت کرتے ہیں، ان کی نذر و نیاز منت مانتے ہیں، ان کے نام پر جانور کاٹتے ہیں، دکھ، بیماری میں ان کو پکارتے ہیں، ان کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں، ان کی قبروں پر جاکر سجدہ اور طواف کرتے ہیں، ان سے وسعت رزق یا اولاد یا شفاءطلب کرتے ہیں۔ یہ سب لوگ فی الحقیقت مشرک ہیں۔ گونام کے مسلمان کہلائیں تو کیا ہوتا ہے۔ ایسا ظاہری برائے نام اسلام آخرت میں کچھ کام نہیں آئے گا۔ عرب کے مشرک بھی اللہ کو مانتے تھے۔ خالق آسمان و زمین اسی کو جانتے تھے مگر غیرخدا کی عبادت اور تعظیم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو مشرک قرار دیا۔ اگر تم قرآن شریف کا ترجمہ خوب سمجھ کر پڑھو تو شرک کا مطلب اچھی طرح سمجھ لوگے مگر افسوس تو یہ ہے کہ تم ساری عمر میں ایک بار بھی قرآن اول سے لے کرآخر تک سمجھ کر نہیں پڑھتے، صرف اس کے الفاظ رٹ لیتے ہیں اس سے کام نہیں چلتا۔