‌صحيح البخاري - حدیث 6914

كِتَابُ الدِّيَاتِ بَابُ إِثْمِ مَنْ قَتَلَ ذِمِّيًّا بِغَيْرِ جُرْمٍ صحيح حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 6914

کتاب: دیتوں کے بیان میں باب : اگر کوئی ذمی کافر کو بےگناہ مارڈالے تو کتنا بڑا گناہ ہوگا ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے، کہا ہم سے حسن بن عمرو فقیمی نے، کہا ہم سے مجاہد نے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ نے فرمایا جو شخص ایسی جان کو مارڈاے جس سے عہد کرچکا ہو( اس کی امان دے چکا ہو) جیسے ذمی کافر کو تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا( چہ جائے کہ اس میں داخل ہو) حالانکہ بہشت کی خوشبو چالیس برس کی راہ سے معلوم ہوتی ہے۔
تشریح : اس میں وہ سب کافر آگئے جن کو دارالاسلام میں امان دیاگیا ہو خواہ بادشاہ اسلام کی طرف سے جزیہ یا صلح پر یا کسی مسلمان نے اس کو امان دی ہو لیکن اگر یہ بات نہ ہو تو اس کافر کی جان لینا یا اس کا مال لوٹنا شرع اسلام کی رو سے درست ہے۔ مثلاً وہ کافر جو دارالاسلام سے باہر سرحد پر رہتے ہوں، ان کی سرحد میں جاکر ان کو یا ان کی کافر رعیت کو لوٹنا مارنا حلال ہے۔ اسماعیلی کی روایت میں یوں ہے کہ بہشت کی خوشبو ستر برس کی راہ سے معلوم ہوتی ہے اور طبرانی کی ایک روایت میں سوبرس مذکور ہیں۔ دوسری روایت میں پانچ سو برس اور فردوس دیلمی کی روایت میں ہزار برس مذکور ہیں اور یہ تعارض نہیں اس لیے کہ ہزار برس کی راہ سے بہشت کی خوشبو محسوس ہوتی ہے تو پانچ سو یا سو یا ستر یا چالیس برس کی راہ سے اور زیادہ محسوس ہوگی۔ اس میں وہ سب کافر آگئے جن کو دارالاسلام میں امان دیاگیا ہو خواہ بادشاہ اسلام کی طرف سے جزیہ یا صلح پر یا کسی مسلمان نے اس کو امان دی ہو لیکن اگر یہ بات نہ ہو تو اس کافر کی جان لینا یا اس کا مال لوٹنا شرع اسلام کی رو سے درست ہے۔ مثلاً وہ کافر جو دارالاسلام سے باہر سرحد پر رہتے ہوں، ان کی سرحد میں جاکر ان کو یا ان کی کافر رعیت کو لوٹنا مارنا حلال ہے۔ اسماعیلی کی روایت میں یوں ہے کہ بہشت کی خوشبو ستر برس کی راہ سے معلوم ہوتی ہے اور طبرانی کی ایک روایت میں سوبرس مذکور ہیں۔ دوسری روایت میں پانچ سو برس اور فردوس دیلمی کی روایت میں ہزار برس مذکور ہیں اور یہ تعارض نہیں اس لیے کہ ہزار برس کی راہ سے بہشت کی خوشبو محسوس ہوتی ہے تو پانچ سو یا سو یا ستر یا چالیس برس کی راہ سے اور زیادہ محسوس ہوگی۔