‌صحيح البخاري - حدیث 6899

كِتَابُ الدِّيَاتِ بَابُ القَسَامَةِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَسَدِيُّ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ حَدَّثَنِي أَبُو رَجَاءٍ مِنْ آلِ أَبِي قِلَابَةَ حَدَّثَنِي أَبُو قِلَابَةَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَبْرَزَ سَرِيرَهُ يَوْمًا لِلنَّاسِ ثُمَّ أَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا فَقَالَ مَا تَقُولُونَ فِي الْقَسَامَةِ قَالَ نَقُولُ الْقَسَامَةُ الْقَوَدُ بِهَا حَقٌّ وَقَدْ أَقَادَتْ بِهَا الْخُلَفَاءُ قَالَ لِي مَا تَقُولُ يَا أَبَا قِلَابَةَ وَنَصَبَنِي لِلنَّاسِ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عِنْدَكَ رُءُوسُ الْأَجْنَادِ وَأَشْرَافُ الْعَرَبِ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ خَمْسِينَ مِنْهُمْ شَهِدُوا عَلَى رَجُلٍ مُحْصَنٍ بِدِمَشْقَ أَنَّهُ قَدْ زَنَى لَمْ يَرَوْهُ أَكُنْتَ تَرْجُمُهُ قَالَ لَا قُلْتُ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ خَمْسِينَ مِنْهُمْ شَهِدُوا عَلَى رَجُلٍ بِحِمْصَ أَنَّهُ سَرَقَ أَكُنْتَ تَقْطَعُهُ وَلَمْ يَرَوْهُ قَالَ لَا قُلْتُ فَوَاللَّهِ مَا قَتَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا فِي إِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ رَجُلٌ قَتَلَ بِجَرِيرَةِ نَفْسِهِ فَقُتِلَ أَوْ رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانٍ أَوْ رَجُلٌ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَارْتَدَّ عَنْ الْإِسْلَامِ فَقَالَ الْقَوْمُ أَوَلَيْسَ قَدْ حَدَّثَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطَعَ فِي السَّرَقِ وَسَمَرَ الْأَعْيُنَ ثُمَّ نَبَذَهُمْ فِي الشَّمْسِ فَقُلْتُ أَنَا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثَ أَنَسٍ حَدَّثَنِي أَنَسٌ أَنَّ نَفَرًا مِنْ عُكْلٍ ثَمَانِيَةً قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَايَعُوهُ عَلَى الْإِسْلَامِ فَاسْتَوْخَمُوا الْأَرْضَ فَسَقِمَتْ أَجْسَامُهُمْ فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَفَلَا تَخْرُجُونَ مَعَ رَاعِينَا فِي إِبِلِهِ فَتُصِيبُونَ مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا قَالُوا بَلَى فَخَرَجُوا فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا فَصَحُّوا فَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَطْرَدُوا النَّعَمَ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلَ فِي آثَارِهِمْ فَأُدْرِكُوا فَجِيءَ بِهِمْ فَأَمَرَ بِهِمْ فَقُطِّعَتْ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ ثُمَّ نَبَذَهُمْ فِي الشَّمْسِ حَتَّى مَاتُوا قُلْتُ وَأَيُّ شَيْءٍ أَشَدُّ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلَاءِ ارْتَدُّوا عَنْ الْإِسْلَامِ وَقَتَلُوا وَسَرَقُوا فَقَالَ عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَاللَّهِ إِنْ سَمِعْتُ كَالْيَوْمِ قَطُّ فَقُلْتُ أَتَرُدُّ عَلَيَّ حَدِيثِي يَا عَنْبَسَةُ قَالَ لَا وَلَكِنْ جِئْتَ بِالْحَدِيثِ عَلَى وَجْهِهِ وَاللَّهِ لَا يَزَالُ هَذَا الْجُنْدُ بِخَيْرٍ مَا عَاشَ هَذَا الشَّيْخُ بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ قُلْتُ وَقَدْ كَانَ فِي هَذَا سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ نَفَرٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَتَحَدَّثُوا عِنْدَهُ فَخَرَجَ رَجُلٌ مِنْهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ فَقُتِلَ فَخَرَجُوا بَعْدَهُ فَإِذَا هُمْ بِصَاحِبِهِمْ يَتَشَحَّطُ فِي الدَّمِ فَرَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَاحِبُنَا كَانَ تَحَدَّثَ مَعَنَا فَخَرَجَ بَيْنَ أَيْدِينَا فَإِذَا نَحْنُ بِهِ يَتَشَحَّطُ فِي الدَّمِ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ بِمَنْ تَظُنُّونَ أَوْ مَنْ تَرَوْنَ قَتَلَهُ قَالُوا نَرَى أَنَّ الْيَهُودَ قَتَلَتْهُ فَأَرْسَلَ إِلَى الْيَهُودِ فَدَعَاهُمْ فَقَالَ آنْتُمْ قَتَلْتُمْ هَذَا قَالُوا لَا قَالَ أَتَرْضَوْنَ نَفَلَ خَمْسِينَ مِنْ الْيَهُودِ مَا قَتَلُوهُ فَقَالُوا مَا يُبَالُونَ أَنْ يَقْتُلُونَا أَجْمَعِينَ ثُمَّ يَنْتَفِلُونَ قَالَ أَفَتَسْتَحِقُّونَ الدِّيَةَ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْكُمْ قَالُوا مَا كُنَّا لِنَحْلِفَ فَوَدَاهُ مِنْ عِنْدِهِ قُلْتُ وَقَدْ كَانَتْ هُذَيْلٌ خَلَعُوا خَلِيعًا لَهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَطَرَقَ أَهْلَ بَيْتٍ مِنْ الْيَمَنِ بِالْبَطْحَاءِ فَانْتَبَهَ لَهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَحَذَفَهُ بِالسَّيْفِ فَقَتَلَهُ فَجَاءَتْ هُذَيْلٌ فَأَخَذُوا الْيَمَانِيَّ فَرَفَعُوهُ إِلَى عُمَرَ بِالْمَوْسِمِ وَقَالُوا قَتَلَ صَاحِبَنَا فَقَالَ إِنَّهُمْ قَدْ خَلَعُوهُ فَقَالَ يُقْسِمُ خَمْسُونَ مِنْ هُذَيْلٍ مَا خَلَعُوهُ قَالَ فَأَقْسَمَ مِنْهُمْ تِسْعَةٌ وَأَرْبَعُونَ رَجُلًا وَقَدِمَ رَجُلٌ مِنْهُمْ مِنْ الشَّأْمِ فَسَأَلُوهُ أَنْ يُقْسِمَ فَافْتَدَى يَمِينَهُ مِنْهُمْ بِأَلْفِ دِرْهَمٍ فَأَدْخَلُوا مَكَانَهُ رَجُلًا آخَرَ فَدَفَعَهُ إِلَى أَخِي الْمَقْتُولِ فَقُرِنَتْ يَدُهُ بِيَدِهِ قَالُوا فَانْطَلَقَا وَالْخَمْسُونَ الَّذِينَ أَقْسَمُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا بِنَخْلَةَ أَخَذَتْهُمْ السَّمَاءُ فَدَخَلُوا فِي غَارٍ فِي الْجَبَلِ فَانْهَجَمَ الْغَارُ عَلَى الْخَمْسِينَ الَّذِينَ أَقْسَمُوا فَمَاتُوا جَمِيعًا وَأَفْلَتَ الْقَرِينَانِ وَاتَّبَعَهُمَا حَجَرٌ فَكَسَرَ رِجْلَ أَخِي الْمَقْتُولِ فَعَاشَ حَوْلًا ثُمَّ مَاتَ قُلْتُ وَقَدْ كَانَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ أَقَادَ رَجُلًا بِالْقَسَامَةِ ثُمَّ نَدِمَ بَعْدَ مَا صَنَعَ فَأَمَرَ بِالْخَمْسِينَ الَّذِينَ أَقْسَمُوا فَمُحُوا مِنْ الدِّيوَانِ وَسَيَّرَهُمْ إِلَى الشَّأْمِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 6899

کتاب: دیتوں کے بیان میں باب : قسامت کا بیان ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبشر اسماعیل بن ابراہیم الاسدی نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن ابی عثمان نے بیان کیا، ان سے آل ابوقلابہ کے غلام ابورجاءنے بیان کیا اس نے کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ نے بیان کیا کہ عمر بن عبدالعزیز نے ایک دن دربار عام کیا اور سب کو اجازت دی۔ لوگ داخل ہوئے تو انہو ں نے پوچھا قسامہ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ کسی نے کہا کہ قسامہ کے ذریقہ قصاص لینا حق ہے اور خلفاءنے اس کے ذریعہ قصاص لیا ہے۔ اس پر انہں نے مجھ سے پوچھا ابوقلابہ تمہاری کیا رائے ہے؟ اور مجھے عوام کے ساتھ لاکھڑا کردیا۔ میں نے عرض کیا امیرالمؤمنین! آپ کے پاس عرب کے سردار اور شریف لوگ رہتے ہیں آپ کی کیا رائے ہوگی اگر ان میں سے پچاس آدمی کسی دمشقی کے شادی شدہ شخص کے بارے میں زنا کی گواہی دیں جبکہ ان لوگوں نے اس شخص کو دیکھا بھی نہ ہو کیا آپ ان کی گواہی پر اس شخص کو رجم کردیں گے۔ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ نہیں۔ پھر میں نے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے اگر انہیں( اشراف عرب) میں سے پچاس افراد حمص کے کسی شخص کے متعلق چوری کی گواہی دے دیں اس کو بغیر دیکھے تو کیا آپ اس کا ہاتھ کاٹ دیں گے؟ فرمایا کہ نہیں۔ پھر میں نے کہا، پس خدا کی قسم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو تین حالتوں کے سوا قتل نہیں کرایا۔ ایک وہ شخص جس نے کسی کو ظلماً قتل کیا ہو اور اس کے بدلے میں قتل کیاگیا ہو۔ دوسرا وہ شخص جس نے شادی کے بعد زنا کیا ہو۔ تیسرا وہ شخص جس نے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی ہو اور اسلام سے پھر گیا ہو۔ لوگوں نے اس پر کہا، کیا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث نہیں بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چوری کے معاملہ میں ہاتھ پیر کاٹ دئیے تھے اور آنکھوںمیں سلائی پھروائی تھی اور پھر انہیں دھوپ میں ڈلوادیا تھا۔ میں نے کہا کہ میں آپ لوگوں کو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث سناتا ہوں۔ مجھ سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قبیلہ عکل کے آٹھ افراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اسلام پر بیعت کی، پھر مدینہ منورہ کی آب و ہوا انہیں ناموافق ہوئی اور وہ بیمار پڑگئے تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ پھر کیوں نہیں تم ہمارے چرواہے کے ساتھ اس کے اونٹوں میں چلے جاتے اور اونٹوں کا دودھ اوران کا پیشاب پیتے۔ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں۔ چنانچہ وہ نکل گئے اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا اور صحت مند ہوگئے۔ پھر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہ کو قتل کردیا اور ہنکالے گئے۔ اس کی اطلاع جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے ان کی تلاش میں آدمی بھیجے، پھروہ پکڑے گئے اور لائے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور ان کے بھی ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئےے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی پھر انہیں دھوپ میں ڈلوادیا اور آخر وہ مرگئے۔ میں نے کہا کہ ان کے عمل سے بڑھ کر اور کیا جرم ہوسکتا ہے اسلام سے پھر گئے اور قتل کیا اور چوری کی۔ عنبہ بن سعید نے کہا میں نے آج جیسی بات کبھی نہیں سنی تھی۔ میں نے کہا عنبہ! کیا تم میری حدیث رد کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں آپ نے یہ حدیث واقعہ کے مطابق بیان کردی ہے، واللہ اہل شام کے ساتھ اس وقت تک خیروبھلائی رہے گی جب تک یہ شیخ( ابوقلابہ) ان میں موجود رہیں گے۔ میں نے کہا کہ اس قسامہ کے سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت ہے۔ انصار کے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی پھر ان میں سے ایک صاحب ان کے سامنے ہی نکلے( خیبر کے ارادہ سے) اور وہاں قتل کردےئے گئے۔ اس کے بعد دوسرے صحابہ بھی گئے اور دیکھا کہ ان کے ساتھ خون میں تڑپ رہے ہیں۔ ان لوگوں نے واپس آکرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی اور کہا یا رسول اللہ! ہمارے ساتھ گفتگو کررہے اور اچانک وہ ہمیں( خیبر میں) خون میں تڑپتے ملے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اورپوچھا کہ تمہارا کس پر شبہ ہے کہ انہوں نے ان کو قتل کیا ہے۔ صحابہ نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہودیوں نے ہی قتل کے ہے پھر آپ نے یہودیوں کو بلا بھیجا اور ان سے پوچھا کیا تم نے انہیں قتل کیا ہے؟ انہوں نے انکار کردیا تو آپ نے فرمایا کیا تم مان جاؤ گے اگر پچاس یہودی اس کی قسم لیںکہ انہوں نے مقتول کو قتل نہیں کیا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یہ لوگ ذرا بھی پرواہ نہیں کریں گے کہ ہم سب کو قتل کرنے کے بعد پھر قسم کھالیں( کہ قتل انہوں نے نہیں کیا ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر تم میں سے پچاس آدمی قسم کھالیں اور خون بہا کے مستحق ہوجائیں۔ صحابہ نے عرض کیا ہم بھی قسم کھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پاس سے خون بہادیا( ابوقلابہ نے کہا کہ) میں نے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں قبیلہ ہذیل کے لوگوں نے اپنے ایک آدمی کواپنے میں سے نکال دیا تھا پھر وہ شخص بطحاءمیں یمن کے ایک شخص کے گھر رات کو آیا۔ اتنے میں ان میں سے کوئی شخص بیدار ہوگیا اور اس نے اس پر تلوار سے حملہ کرکے قتل کردیا۔ اس کے بعد ہذیل کے لوگ آئے اور انہوں نے یمنی کو ( جس نے قتل کیا تھا) پکڑا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئے حج کے زمانہ میں اور کہا کہ اس نے ہمارے آدمی کو قتل کردیا ہے۔ یمنی نے کہا کہ انہوں نے اسے اپنی برادری سے نکال دیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب ہذیل کے پچاس آدمی اس کی قسم کھائیں کہ انہوں نے اسے نکالا نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر ان میں سے انچاس آدمیوں نے قسم کھائی پھر انہیں کے قبیلہ کا ایک شخص شام سے آیا تو انہوں نے اس سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ قسم کھائے لیکن اس نے اپنی قسم کے بدلہ میں ایک ہزار درہم دے کر اپنا پیچھا قسم سے چھڑالیا۔ ہذلیوں نے اس کی جگہ ایک دوسرے آدمی کو تیار کرلیا پھر وہ مقتول کے بھائی کے پاس گیا اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے ملایا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ہم پچاس جنہوں نے قسم کھائی تھی روانہ ہوئے۔ جب مقام نخلہ پر پہنچے تو بارش نے انہیں آیا۔ سب لوگ پہاڑ کے ایک غار میں گھس گئے اور غار ان پچاسوں کے اوپر گرپڑا۔ جنہوں نے قسم کھائی تھی اور سب کے سب مرگئے۔ البتہ دونوں ہاتھ ملانے والے بچ گئے۔ لیکن ان کے پیچھے سے ایک پتھر لڑھک کر گرا اور اس سے مقتول کے بھائی کی ٹانگ ٹوٹ گئی اس کے بعد وہ ایک سال اور زندہ رہا پھر مرگیا۔ میں نے کہا کہ عبدالملک بن مروان نے قسامہ پر ایک شخص سے قصاص لی تھی پھر اسے اپنے کئے ہوئے پر ندامت ہوئی اور اس نے ان پچاسوں کے متعلق جنہوں نے قسم کھائی تھی حکم دیا اور ان کے نام رجسٹر سے کاٹ دےئے گئے پھر انہوں نے شام بھیج دیا۔