كِتَابُ الدِّيَاتِ بَابُ سُؤَالِ القَاتِلِ حَتَّى يُقِرَّ، وَالإِقْرَارِ فِي الحُدُودِ صحيح حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ يَهُودِيًّا رَضَّ رَأْسَ جَارِيَةٍ بَيْنَ حَجَرَيْنِ فَقِيلَ لَهَا مَنْ فَعَلَ بِكِ هَذَا أَفُلَانٌ أَوْ فُلَانٌ حَتَّى سُمِّيَ الْيَهُودِيُّ فَأُتِيَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّى أَقَرَّ بِهِ فَرُضَّ رَأْسُهُ بِالْحِجَارَةِ
کتاب: دیتوں کے بیان میں
باب : حاکم کا قاتل سے پوچھ گچھ کرنا یہاں تک کہ وہ اقرار کرلے اور حدود میں اقرار( اثباب جرم کیلئے) کافی ہے۔
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سردوپتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا پھر اس لڑکی سے پوچھاگیا کہ یہ کس نے کیا ہے؟ فلاں نیں، فلاں نے؟ آخر جب اس یہودی کا نام لیاگیا ( تولڑکی نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا) پھر یہودی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں لایاگیا اور اس سے پوچھ گچھ کی جاتی رہی یہاں تک کہ اس نے جرم کا اقرار کرلیا چنانچہ کا سر بھی پتھروں سے کچلاگیا۔
تشریح :
اس حدیث سے حنفیہ کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ قصاص ہمیشہ تلوار ہی سے لیا جائے گا اور یہ بھی ثابت ہوا کہ مرد عورت کے بدلے قلت کیا جائے گا۔ بعض لوگوں نے اس سے دلیل لی ہے کہ اجماع کا منکر کافر ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ ایسی اجماعی بات کا منکر کافر ہے جس کا وجوب شریعت سے تواتراً ثابت ہولیکن جس مسئلہ کاثبوت حدیث صحیح متواتریا آیت قرآن سے ثابت نہ ہو اور اس میں کوئی اجماع کا خلاف کرے تو وہ کافر نہ ہوگا۔ قاضی عیاض نے کہا جو عالم کے حدوث کا منکر ہو اور اسے قدیم کہے وہ کافر ہے اور جماعت کے چھوڑنے میں باغی اور رہزن اور اس قول سے مڑنے والے اور امام برحق سے مخالفت کرنے والے بھی آگئے ان کا بھی قتل درست ہے۔
اس حدیث سے حنفیہ کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ قصاص ہمیشہ تلوار ہی سے لیا جائے گا اور یہ بھی ثابت ہوا کہ مرد عورت کے بدلے قلت کیا جائے گا۔ بعض لوگوں نے اس سے دلیل لی ہے کہ اجماع کا منکر کافر ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ ایسی اجماعی بات کا منکر کافر ہے جس کا وجوب شریعت سے تواتراً ثابت ہولیکن جس مسئلہ کاثبوت حدیث صحیح متواتریا آیت قرآن سے ثابت نہ ہو اور اس میں کوئی اجماع کا خلاف کرے تو وہ کافر نہ ہوگا۔ قاضی عیاض نے کہا جو عالم کے حدوث کا منکر ہو اور اسے قدیم کہے وہ کافر ہے اور جماعت کے چھوڑنے میں باغی اور رہزن اور اس قول سے مڑنے والے اور امام برحق سے مخالفت کرنے والے بھی آگئے ان کا بھی قتل درست ہے۔