كِتَابُ المُحَارِبِينَ مِنْ أَهْلِ الكُفْرِ وَالرِّدَّةِ بَابُ مَنْ أَظْهَرَ الفَاحِشَةَ وَاللَّطْخَ وَالتُّهَمَةَ بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ ذَكَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ هِيَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كُنْتُ رَاجِمًا امْرَأَةً عَنْ غَيْرِ بَيِّنَةٍ قَالَ لَا تِلْكَ امْرَأَةٌ أَعْلَنَتْ
کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
باب : اگر کسی شخص کی بے حیائی اور بے شرمی اور آلودگی پر گواہ نہ ہوں پھر قرائن سے یہ امر کھل جائے
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے قائم بن محمد نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے دولعان کرنے والوں کا ذکر کیا تو حضرت عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہما نے کہا کہ یہ وہی تھی جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میں کسی عورت کو بلاگواہی رجم کرسکتا( تو اسے ضرور کرتا) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نہیں یہ وہ عورت تھی جو( فسق و فجور) ظاہر کیا کرتی تھی۔
تشریح :
یہاں روایت میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا نام نامی آیا ہے جو مشہور ترین صحابی ہیں۔ ان کی ماں کا نام لبابہ بنت حارث ہے۔ ہجرت سے تین سال پہلے پیدا ہوئے۔ وفات نبوی کے وقت ان کی عمر پندرہ سال کی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے علم و حکمت کی دعا فرمائی جس کے نتیجہ میں یہ اس وقت کے ربانی عالم قرار پائے۔ امت میں سب سے زیادہ حسین، سب سے بڑھ کر فصیح، حدیث کے سب سے بڑے عالم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان کو اجلہ صحابہ کی موجودگی میں اپنے پاس بٹھاتے اور ان سے مشورہ لیتے اور ان کی رائے کو ترجیح دیتے تھے۔ آخر عمر میں نابینا ہوگئے تھے۔ گورا رنگ، قد دراز، جسم خوبصورت، غیرمند تھے اور داڑھی کو مہندی کا خضاب لگایا کرتے تھے۔ اکہتر سال کی عمر میں بعہد خلاف ابن زبیر68ھ میں وفات پائی۔ ( رضی اللہ عنہ )
یہاں روایت میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا نام نامی آیا ہے جو مشہور ترین صحابی ہیں۔ ان کی ماں کا نام لبابہ بنت حارث ہے۔ ہجرت سے تین سال پہلے پیدا ہوئے۔ وفات نبوی کے وقت ان کی عمر پندرہ سال کی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے علم و حکمت کی دعا فرمائی جس کے نتیجہ میں یہ اس وقت کے ربانی عالم قرار پائے۔ امت میں سب سے زیادہ حسین، سب سے بڑھ کر فصیح، حدیث کے سب سے بڑے عالم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان کو اجلہ صحابہ کی موجودگی میں اپنے پاس بٹھاتے اور ان سے مشورہ لیتے اور ان کی رائے کو ترجیح دیتے تھے۔ آخر عمر میں نابینا ہوگئے تھے۔ گورا رنگ، قد دراز، جسم خوبصورت، غیرمند تھے اور داڑھی کو مہندی کا خضاب لگایا کرتے تھے۔ اکہتر سال کی عمر میں بعہد خلاف ابن زبیر68ھ میں وفات پائی۔ ( رضی اللہ عنہ )