كِتَابُ المُحَارِبِينَ مِنْ أَهْلِ الكُفْرِ وَالرِّدَّةِ بَابُ رَجْمِ الحُبْلَى مِنَ الزِّنَا إِذَا أَحْصَنَتْ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ أُقْرِئُ رِجَالًا مِنْ الْمُهَاجِرِينَ مِنْهُمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فَبَيْنَمَا أَنَا فِي مَنْزِلِهِ بِمِنًى وَهُوَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي آخِرِ حَجَّةٍ حَجَّهَا إِذْ رَجَعَ إِلَيَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَالَ لَوْ رَأَيْتَ رَجُلًا أَتَى أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ الْيَوْمَ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلْ لَكَ فِي فُلَانٍ يَقُولُ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ لَقَدْ بَايَعْتُ فُلَانًا فَوَاللَّهِ مَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ إِلَّا فَلْتَةً فَتَمَّتْ فَغَضِبَ عُمَرُ ثُمَّ قَالَ إِنِّي إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَقَائِمٌ الْعَشِيَّةَ فِي النَّاسِ فَمُحَذِّرُهُمْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَغْصِبُوهُمْ أُمُورَهُمْ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَا تَفْعَلْ فَإِنَّ الْمَوْسِمَ يَجْمَعُ رَعَاعَ النَّاسِ وَغَوْغَاءَهُمْ فَإِنَّهُمْ هُمْ الَّذِينَ يَغْلِبُونَ عَلَى قُرْبِكَ حِينَ تَقُومُ فِي النَّاسِ وَأَنَا أَخْشَى أَنْ تَقُومَ فَتَقُولَ مَقَالَةً يُطَيِّرُهَا عَنْكَ كُلُّ مُطَيِّرٍ وَأَنْ لَا يَعُوهَا وَأَنْ لَا يَضَعُوهَا عَلَى مَوَاضِعِهَا فَأَمْهِلْ حَتَّى تَقْدَمَ الْمَدِينَةَ فَإِنَّهَا دَارُ الْهِجْرَةِ وَالسُّنَّةِ فَتَخْلُصَ بِأَهْلِ الْفِقْهِ وَأَشْرَافِ النَّاسِ فَتَقُولَ مَا قُلْتَ مُتَمَكِّنًا فَيَعِي أَهْلُ الْعِلْمِ مَقَالَتَكَ وَيَضَعُونَهَا عَلَى مَوَاضِعِهَا فَقَالَ عُمَرُ أَمَا وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَأَقُومَنَّ بِذَلِكَ أَوَّلَ مَقَامٍ أَقُومُهُ بِالْمَدِينَةِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فِي عُقْبِ ذِي الْحَجَّةِ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ عَجَّلْتُ الرَّوَاحَ حِينَ زَاغَتْ الشَّمْسُ حَتَّى أَجِدَ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ جَالِسًا إِلَى رُكْنِ الْمِنْبَرِ فَجَلَسْتُ حَوْلَهُ تَمَسُّ رُكْبَتِي رُكْبَتَهُ فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ خَرَجَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَلَمَّا رَأَيْتُهُ مُقْبِلًا قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ لَيَقُولَنَّ الْعَشِيَّةَ مَقَالَةً لَمْ يَقُلْهَا مُنْذُ اسْتُخْلِفَ فَأَنْكَرَ عَلَيَّ وَقَالَ مَا عَسَيْتَ أَنْ يَقُولَ مَا لَمْ يَقُلْ قَبْلَهُ فَجَلَسَ عُمَرُ عَلَى الْمِنْبَرِ فَلَمَّا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُونَ قَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي قَائِلٌ لَكُمْ مَقَالَةً قَدْ قُدِّرَ لِي أَنْ أَقُولَهَا لَا أَدْرِي لَعَلَّهَا بَيْنَ يَدَيْ أَجَلِي فَمَنْ عَقَلَهَا وَوَعَاهَا فَلْيُحَدِّثْ بِهَا حَيْثُ انْتَهَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ وَمَنْ خَشِيَ أَنْ لَا يَعْقِلَهَا فَلَا أُحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يَكْذِبَ عَلَيَّ إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ فَكَانَ مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةُ الرَّجْمِ فَقَرَأْنَاهَا وَعَقَلْنَاهَا وَوَعَيْنَاهَا رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ فَأَخْشَى إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ وَاللَّهِ مَا نَجِدُ آيَةَ الرَّجْمِ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ وَالرَّجْمُ فِي كِتَابِ اللَّهِ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى إِذَا أُحْصِنَ مِنْ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ إِذَا قَامَتْ الْبَيِّنَةُ أَوْ كَانَ الْحَبَلُ أَوْ الِاعْتِرَافُ ثُمَّ إِنَّا كُنَّا نَقْرَأُ فِيمَا نَقْرَأُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ أَنْ لَا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ فَإِنَّهُ كُفْرٌ بِكُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ أَوْ إِنَّ كُفْرًا بِكُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ أَلَا ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُطْرُونِي كَمَا أُطْرِيَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ ثُمَّ إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ قَائِلًا مِنْكُمْ يَقُولُ وَاللَّهِ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ بَايَعْتُ فُلَانًا فَلَا يَغْتَرَّنَّ امْرُؤٌ أَنْ يَقُولَ إِنَّمَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ فَلْتَةً وَتَمَّتْ أَلَا وَإِنَّهَا قَدْ كَانَتْ كَذَلِكَ وَلَكِنَّ اللَّهَ وَقَى شَرَّهَا وَلَيْسَ مِنْكُمْ مَنْ تُقْطَعُ الْأَعْنَاقُ إِلَيْهِ مِثْلُ أَبِي بَكْرٍ مَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَلَا يُبَايَعُ هُوَ وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا وَإِنَّهُ قَدْ كَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِينَ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ وَخَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ وَمَنْ مَعَهُمَا وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ يَا أَبَا بَكْرٍ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى إِخْوَانِنَا هَؤُلَاءِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَانْطَلَقْنَا نُرِيدُهُمْ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْهُمْ لَقِيَنَا مِنْهُمْ رَجُلَانِ صَالِحَانِ فَذَكَرَا مَا تَمَالَأَ عَلَيْهِ الْقَوْمُ فَقَالَا أَيْنَ تُرِيدُونَ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ فَقُلْنَا نُرِيدُ إِخْوَانَنَا هَؤُلَاءِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَا لَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَقْرَبُوهُمْ اقْضُوا أَمْرَكُمْ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّهُمْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَاهُمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ فَإِذَا رَجُلٌ مُزَمَّلٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا فَقَالُوا هَذَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ فَقُلْتُ مَا لَهُ قَالُوا يُوعَكُ فَلَمَّا جَلَسْنَا قَلِيلًا تَشَهَّدَ خَطِيبُهُمْ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ وَكَتِيبَةُ الْإِسْلَامِ وَأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ رَهْطٌ وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْ قَوْمِكُمْ فَإِذَا هُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَخْتَزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا وَأَنْ يَحْضُنُونَا مِنْ الْأَمْرِ فَلَمَّا سَكَتَ أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ وَكُنْتُ قَدْ زَوَّرْتُ مَقَالَةً أَعْجَبَتْنِي أُرِيدُ أَنْ أُقَدِّمَهَا بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَكْرٍ وَكُنْتُ أُدَارِي مِنْهُ بَعْضَ الْحَدِّ فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى رِسْلِكَ فَكَرِهْتُ أَنْ أُغْضِبَهُ فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَكَانَ هُوَ أَحْلَمَ مِنِّي وَأَوْقَرَ وَاللَّهِ مَا تَرَكَ مِنْ كَلِمَةٍ أَعْجَبَتْنِي فِي تَزْوِيرِي إِلَّا قَالَ فِي بَدِيهَتِهِ مِثْلَهَا أَوْ أَفْضَلَ مِنْهَا حَتَّى سَكَتَ فَقَالَ مَا ذَكَرْتُمْ فِيكُمْ مِنْ خَيْرٍ فَأَنْتُمْ لَهُ أَهْلٌ وَلَنْ يُعْرَفَ هَذَا الْأَمْرُ إِلَّا لِهَذَا الْحَيِّ مِنْ قُرَيْشٍ هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا وَدَارًا وَقَدْ رَضِيتُ لَكُمْ أَحَدَ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ فَبَايِعُوا أَيَّهُمَا شِئْتُمْ فَأَخَذَ بِيَدِي وَبِيَدِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ وَهُوَ جَالِسٌ بَيْنَنَا فَلَمْ أَكْرَهْ مِمَّا قَالَ غَيْرَهَا كَانَ وَاللَّهِ أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِي لَا يُقَرِّبُنِي ذَلِكَ مِنْ إِثْمٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلَى قَوْمٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ اللَّهُمَّ إِلَّا أَنْ تُسَوِّلَ إِلَيَّ نَفْسِي عِنْدَ الْمَوْتِ شَيْئًا لَا أَجِدُهُ الْآنَ فَقَالَ قَائِلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَا جُذَيْلُهَا الْمُحَكَّكُ وَعُذَيْقُهَا الْمُرَجَّبُ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ فَكَثُرَ اللَّغَطُ وَارْتَفَعَتْ الْأَصْوَاتُ حَتَّى فَرِقْتُ مِنْ الِاخْتِلَافِ فَقُلْتُ ابْسُطْ يَدَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ فَبَسَطَ يَدَهُ فَبَايَعْتُهُ وَبَايَعَهُ الْمُهَاجِرُونَ ثُمَّ بَايَعَتْهُ الْأَنْصَارُ وَنَزَوْنَا عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فَقُلْتُ قَتَلَ اللَّهُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ قَالَ عُمَرُ وَإِنَّا وَاللَّهِ مَا وَجَدْنَا فِيمَا حَضَرْنَا مِنْ أَمْرٍ أَقْوَى مِنْ مُبَايَعَةِ أَبِي بَكْرٍ خَشِينَا إِنْ فَارَقْنَا الْقَوْمَ وَلَمْ تَكُنْ بَيْعَةٌ أَنْ يُبَايِعُوا رَجُلًا مِنْهُمْ بَعْدَنَا فَإِمَّا بَايَعْنَاهُمْ عَلَى مَا لَا نَرْضَى وَإِمَّا نُخَالِفُهُمْ فَيَكُونُ فَسَادٌ فَمَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَلَى غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَلَا يُتَابَعُ هُوَ وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا
کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
باب : اگر کوئی عورت زنا سے حاملہ پائی جائے اور وہ شادی شدہ ہو تو اسے رجم کریں گے
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں کئی مہاجرین کو( قرآن مجید) پڑھایا کرتا تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی ان میں سے ایک تھے۔ ابھی میں منیٰ میں ان کے مکان پر تھا اور وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے آخری حج میں( سنہ۳۲ھ) ان کے ساتھ تھے کہ وہ میرے پاس لوٹ کر آئے اور کہا کہ کاش تم اس شخص کو دیکھتے جو آج امیرالمؤمنین کے پاس آیا تھا۔ اس نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! کیا آپ فلاں صاحب سے یہ پوچھ تاچھ کریں گے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہوگیا تو میں صلاح صاحب طلحہ بن عبیداللہ سے بیعت کروں گا کیوں کہ واللہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بغیر سوچے سمجھے بیعت تو اچانک ہوگئی اور پھر وہ مکمل ہوگئی تھی۔ اس پر حضرت عمرص بہت غصہ ہوئے اور کہا میں ان شاءاللہ شام میں لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں ان لوگوں سے ڈراؤں گا جو زبردستی سے دخل درمعقولات کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس پر میں نے عرض کیا یا امیرالمؤمنین ایسا نہ کیجئے۔ حج کے موسم میں کم سمجھی اور برے بھلے ہر ہی قسم کے لوگ جمع ہیں اور جب آپ خطاب کے لئے کھڑے ہوں گے تو آپ کے قریب یہی لوگ زیادہ ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ آپ کھڑے ہوکر کوئی بات کہیں اور وہ چاروں طرف پھیل جائے، لیکن پھیلانے والے اسے صحیح طور پر یاد نہ رکھ سکیں گے اور اس کے غلط معانی پھیلانے لگیں گے، اس لیے مدینہ منورہ پہنچنے تک کا اور انتظار کرلیجئے کیوں کہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے۔ وہاں آپ کو خالص دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور شریف لوگ ملیں گے، وہاں آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اعتماد کے ساتھ ہی فرماسکیں گے اور علم والے آپ کی باتوں کو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں اچھا اللہ کی قسم میں مدینہ منورہ پہنچتے ہی سب سے پہلے لوگوں کو اسی مضمون کا خطبہ دوںگا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ہم ذی الحجہ کے مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ پہنچے۔ جمعہ کے دن سورج ڈھلتے ہی ہم نے( مسجدنبوی) پہنچنے میں جلدی کی اور میں نے دیکھا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ممبر کی جڑ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ میرا ٹخنہ ان کے ٹخنے سے لگا ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی باہر نکلے، جب میں نے انہیں آتے دیکھا تو سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے میں نے کہا کہ آج حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسی بات کہیں گے جو انہوں نے اس سے پہلے خلیفہ بنائے جانے کے بعد کبھی نہیں کہی تھی۔ لیکن انہوں نے اس کو نہ مانا اور کہا کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ آپ کوئی ایسی بات کرہیں گے جو پہلے کبھی نہیں کہی تھی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ممبر پر بیٹھے اور جب مؤذن اذان دے کر خاموش ہوا تو آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی ثنا اس کی شان کے مطابق کرنے کے بعد فرمایا امابعد! آج میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جس کا کہنا میری تقدیر میں لکھا ہوا تھا، مجھ کو نہیں معلوم کہ شاید میری یہ گفتگو موت کے قریب کی آخری گفتگو ہو۔ پس جو کوئی اسے سمجھے اور محفوظ رکھے اسے چاہئے کہ اس بات کو اس جگہ تک پہنچادے جہاںتک اس کی سواری اسے لے جاسکتی ہے اور جسے خوف ہو کہ اس نے بات نہیں سمجھی ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ میری طرف غلط بات منسوب کرے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی، کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ آپ پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود( اپنے زمانہ میں) رجم کرایا۔ پھر آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وقت یوں ہی آگے بڑھتا رہا تو کہیں کوئی یہ نہ دعویٰ کربیٹھے کہ رجم کی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے اور اس طرح وہ اس فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تھا۔ یقینا رجم کا حکم کتاب اللہ سے اس شخص کے لیے ثابت ہے جس نے شادی ہونے کے بعد زنا کیا ہو۔ خواہ مرد ہوں یا عورتیں، بشرطیکہ گواہی مکمل ہوجائے یاحمل ظاہر ہو یا وہ خود اقرار کرلے پھر کتاب اللہ کی آیتوں میں ہم یہ بھی پڑھتے تھے کہ اپنے حقیقی باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب نہ کرو۔ کیوں کہ یہ تمہارا کفر اور انکار ہے کہ تم اپنے اصل باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنی نسبت کرو۔ ہاں اور سن لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میری تعریف حد سے بڑھاکر نہ کرنا جس طرح عیسیٰ ابن امریم عیلہما السلام کی حد سے بڑھاکر تعریفیں کی گئیں( ان کو اللہ کو بیٹا بنادیاگیا) بلکہ ( میرے لیے صرف یہ کہو کہ) میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کسی نے یوں کہا ہے کہ واللہ اگر عمرکا انتقال ہوگیا تو میں فلاں سے بیعت کروںگا دیکھو تم میں سے کسی کو یہ دھوکا نہ ہو کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ناگاہ ہوئی اور اللہ نے ناگہانی بیعت میں جو برائی ہوئی ہے اس سے تم کو بچائے رکھا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور تم میں کوئی شخص ایسا نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا متقی، خدا ترس ہو۔ تم میں کون ہے جس سے ملنے کے لیے اونٹ چلائے جاتے ہوں۔ دیکھو خیال رکھو کوئی شخص کسی سے بغیر مسلمانوں کے صلاح مشورہ اور اتفاق اور غلبہ آراءکے بغیر بیعت نہ کرے جو کوئی ایسا کرے گا اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا دونوں اپنی جان گنوادیں گے اور سن لو بلاشبہ جس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوی تو ابوبکرص ہم میں سے سب سے بہتر تھے البتہ انصار نے ہماری مخالفت کی تھی اور وہ سب لوگ سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہوگئے تھے۔ اسی طرح علی اور زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہماری مخالفت کی تھی اور باقی مہاجرین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہوگئے تھے۔ اس وقت میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا اے ابوبکر! ہمیں اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس لے چلئے۔ چنانچہ ہم ان سے ملاقات کے ارادہ سے چل پڑے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ہماری انہیں میں کے دو نیک لوگوں سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے کہ ( سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنائیں) اور انہوں نے پوچھا۔ حضرات مہاجرین آپ لوگ کہاں جارہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ ہرگز وہاں نہ جائیں بلکہ خود جو کرنا ہے کرڈالو لیکن میں نے کہا کہ بخدا ہم ضرور جائیں گے۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور انصار کے پاس سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے مجلس میں ایک صاحب( سردار خزرج) چادر اپنے سارے جسم پر لپیٹے درمیان میں بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہوگیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ بخار آرہا ہے۔ پھر ہمارے تھوڑی دیر تک بیٹھنے کے بعد ان کے خطیب نے کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی۔ پھر کہا امابعد! ہم اللہ کے دین کے مددگار( انصار) اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے گروہ مہاجرین! کم تعداد میں ہو۔ تمہاری یہ تھوڑی سی تعداد اپنی قوم قریش سے نکل کر ہم لوگوں میں آرہے ہو۔ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کرکے آپ خلیفہ بن بیٹھو یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ جب وہ خطبہ پورا کرچکے تو میں نے بولنا چاہا۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں ترتیب دے رکھی تھی۔ میری بڑی خواہش تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کردوں اور انصار کی تقریر جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غصہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کردوں جب میں نے بات کرنی چاہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ذرا ٹھہرو میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا۔ آخر انہوں نے ہی تقریر شروع کی اور خدا کی قسم وہ مجھ سے زیادہ عقل مند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ اور متین تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے دل میں سوچ لی تھی اس میں سے انہوں نے کوئی بات نہیں چھوڑی۔ فی البدیہہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھر وہ خاموش ہوگئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بے شک اس کے لیے سزا وار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں اب تم لوگ ایسا کرو کہ ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کرلو۔ ابوبکر نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ تھاما وہ ہمارے بیچ میں بیٹھے ہوئے تھے، ان ساری گفتگو میں صرف یہی ایک بات مجھ سے میرے سوا ہوئی۔ واللہ میں آگے کردیا جاتا اور بے گناہ میری گردن ماردی جاتی تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ مجھے ایک ایسی قوم کا امیر بنایا جاتا جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ خود موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے یہ اور بات ہے کہ وقت پر نفس مجھے بہکادے اور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو اب نہیں کرنا۔ پھر انصار میں سے ایک کہنے والا حباب بن منذریوں کہنے لگا سنو سنو میں ایک لکڑی ہوں کہ جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتے ہیں اور میں وہ باڑ ہوں جو درختوں کے ارد گرد حفاظت کے لیے لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں ( دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والوں کا۔ مہاجرین قوم کا اب خوب شورغل ہونے لگا کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا۔ میں ڈرگیا کہ کہیں مسلمانوں میں پھوٹ نہ پڑجائے آخر میں کہہ اٹھا ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھاؤ، انہوں نے ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین جتنے وہاں موجود تھے انہوں نے بھی بیعت کرلی پھر انصاریوں نے بھی بیعت کرلی( چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الٰہی تھا وہی ظاہر ہوا) اس کے بعد ہم حضرت سعد بن عبادہ کی طرف بڑھے( انہوں نے بیعت نہیں کی) ایک شخص انصار میں سے کہنے لگا بھائیو! بیچارے سعد بن عبادہ کا تم نے خون کرڈالا۔ میں نے کہا اللہ اس کا خون کرے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے زیادہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوتی کیوں کہ ہم کو ڈرپیدا ہوا کہیں ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو وہ کسی اور شخص سے بیعت کربیٹھیں تب دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو ہم بھی جبراً و قہراً اسی سے بیعت کرلیتے یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو آپس میں فساد پیدا ہوتا( پھوٹ پڑجاتی) دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی سے بن سوچے سمجھے، بن صلاح و مشورہ بیعت کرلے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کرے، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیوں کہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔
تشریح :
اس طویل حدیث میں بہت سی باتیں قابل غور ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتقال پر دوسرے سے بیعت کا ذکر کرنے والا شخص کون تھا؟ اس کے بارے میں بلاذری کے انساب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص حضرت زبیر رضیاللہ عنہ تھے۔ انہوں نے یہ کہا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گزر جانے پر ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کریں گے۔ یہی صحیح ہے۔ مولانا وحیدالزماں مرحوم کی تحقیق یہی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ آکر جو خطبہ دیا اس میں آپ نے اپنی وفات کا بھی ذکر فرمایا یہ ان کی کرامت تھی۔ ان کو معلوم ہوگیا تھا کہ اب موت نزدیک آپہنچی ہے۔ اس خطبہ کے بعد ہی ابھی ذی الحجہ کا مہینہ ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ ابولولو مجوسی نے آپ کو شہید کرڈالا۔ بعض روایتوں میں یوں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے ایک خواب دیکھا ہے میں سمجھتا ہوں کہ میری موت آپہنچی ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک مرغ ان کو چونچیں ماررہا ہے۔ منیٰ میں اس کہنے والے کے جوب میں آپ نے تفصیل سے اپنے خطبہ میں اظہار خیال فرمایا اور کہا کہ دیکھو بغیر صلاح مشورہ کے کوئی شخص امام نہ بن بیٹھے، ورنہ ان کی جان کو خطرہ ہوگا۔ اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ خلاف اور بیعت ہمیشہ سوچ سمجھ کر مسلمانوں کے صلاح و مشورے سے ہونی چاہئے اور اگر کوئی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نظیر دے کہ ان کی بیعت دفعتاً باوجود اس کے اس سے کوئی برائی پیدا نہیں ہوئی تو اس کی بے وقوفی ہے۔ کیوں کہ یہ ایک اتفاقی بات تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ افضل ترین امت اور خلافت کے اہل تھے۔ اتفاق سے ان ہی سے بیعت بھی ہوگئی ہر وقت ایسا نہیں ہوسکتا۔ سبحان اللہ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد حق بجانب ہے۔ بغیر صلاح و مشورہ کے امام بن جانے والوں کا انجام اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ ان حالات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بارے اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں جن خیالات کا اظہار فرمایا ان کا مطلب یہ تھا کہ میں مرتے دم تک اسی خیال پر قائم ہوں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر میں مقدم نہیں ہوسکتا اور جن لوگوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ موجود ہوں میں ان کا سردار نہیں بن سکتا۔ اب تک تو میں اسی اعتقاد پر مضبوط ہوں لیکن آئندہ اگر شیطان یا نفس مجھ کو بہکادے اور کوئی دوسرا خیال میرے دل میں ڈال دے تو یہ اور بات ہے۔ آفریں صد آفریں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عجز و انکسار اور حقیقت فہمی پر کہ انہوں نے ہر بات میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنے سے بلند و بالا سمجھا۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔ انصاری خطیب نے جو کچھ کہا اس کا مطلب اپنے تئیں اس کے ان خیالات کا اظہار کرنا تھا کہ میں بڑا صائب الرائے اور عقل مند اور مرجع قوم ہوں لوگ ہر جھگڑے اور قضیے میں میری طرف رجوع ہوتے ہیں اور میں ایسی عمدہ رائے دیتا ہوں کہ جو کسی کو نہیں سوجھتی گویا تنازع اور جھگڑے کی کھجلی میرے پاس آکر اور مجھ سے رائے لے کر رفع کرتے ہیں اور تباہی اور بربادی کے ڈر میں میری پناہ لیتے ہیں میں ان کی باڑ ہوجاتا ہوں حوادث اور بلاؤں کی آندھیوں سے ان کو بچاتا ہوں، اپنی اتنی تعریف کے بعد اس نے دو خلیفہ مقرر کرنے کی تجویز پیش کی جوسراسر غلط تھی اور اسلام کے لیے سخت نقصان دہ اسے تائید الٰہی سمجھنا چاہئے کہ فوراً ہی سب حاضرین انصار اور مہاجرین نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر اتفاق رائے کرکے مسلمانوں کو منتشر ہونے سے بچالیا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بیعت نہ کی اور خفا ہوکر ملک شام چلے گئے اور وہاں اچانک ان کا انتقال ہوگیا۔ انتخاب خلیفہ کے مسئلہ کو تجہیز و تکفین پر مقدم رکھا، اسی وقت سے عموماً یہ رواج ہوگیا کہ جب کوئی خلیفہ یا بادشاہ مرجاتا ہے تو پہلے اس کا جانشین منتخب کرکے بعد میں اس کی تجہیز و تکفین کا کام کیا جاتا ہے۔ حدیث میں ضمنی طور پر جعلی زانیہ کے رجم کا بھی ذکر ہے۔ باب سے یہی مطابقت ہے۔
اس طویل حدیث میں بہت سی باتیں قابل غور ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتقال پر دوسرے سے بیعت کا ذکر کرنے والا شخص کون تھا؟ اس کے بارے میں بلاذری کے انساب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص حضرت زبیر رضیاللہ عنہ تھے۔ انہوں نے یہ کہا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گزر جانے پر ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کریں گے۔ یہی صحیح ہے۔ مولانا وحیدالزماں مرحوم کی تحقیق یہی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ آکر جو خطبہ دیا اس میں آپ نے اپنی وفات کا بھی ذکر فرمایا یہ ان کی کرامت تھی۔ ان کو معلوم ہوگیا تھا کہ اب موت نزدیک آپہنچی ہے۔ اس خطبہ کے بعد ہی ابھی ذی الحجہ کا مہینہ ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ ابولولو مجوسی نے آپ کو شہید کرڈالا۔ بعض روایتوں میں یوں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے ایک خواب دیکھا ہے میں سمجھتا ہوں کہ میری موت آپہنچی ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک مرغ ان کو چونچیں ماررہا ہے۔ منیٰ میں اس کہنے والے کے جوب میں آپ نے تفصیل سے اپنے خطبہ میں اظہار خیال فرمایا اور کہا کہ دیکھو بغیر صلاح مشورہ کے کوئی شخص امام نہ بن بیٹھے، ورنہ ان کی جان کو خطرہ ہوگا۔ اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ خلاف اور بیعت ہمیشہ سوچ سمجھ کر مسلمانوں کے صلاح و مشورے سے ہونی چاہئے اور اگر کوئی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نظیر دے کہ ان کی بیعت دفعتاً باوجود اس کے اس سے کوئی برائی پیدا نہیں ہوئی تو اس کی بے وقوفی ہے۔ کیوں کہ یہ ایک اتفاقی بات تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ افضل ترین امت اور خلافت کے اہل تھے۔ اتفاق سے ان ہی سے بیعت بھی ہوگئی ہر وقت ایسا نہیں ہوسکتا۔ سبحان اللہ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد حق بجانب ہے۔ بغیر صلاح و مشورہ کے امام بن جانے والوں کا انجام اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ ان حالات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بارے اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں جن خیالات کا اظہار فرمایا ان کا مطلب یہ تھا کہ میں مرتے دم تک اسی خیال پر قائم ہوں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر میں مقدم نہیں ہوسکتا اور جن لوگوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ موجود ہوں میں ان کا سردار نہیں بن سکتا۔ اب تک تو میں اسی اعتقاد پر مضبوط ہوں لیکن آئندہ اگر شیطان یا نفس مجھ کو بہکادے اور کوئی دوسرا خیال میرے دل میں ڈال دے تو یہ اور بات ہے۔ آفریں صد آفریں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عجز و انکسار اور حقیقت فہمی پر کہ انہوں نے ہر بات میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنے سے بلند و بالا سمجھا۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔ انصاری خطیب نے جو کچھ کہا اس کا مطلب اپنے تئیں اس کے ان خیالات کا اظہار کرنا تھا کہ میں بڑا صائب الرائے اور عقل مند اور مرجع قوم ہوں لوگ ہر جھگڑے اور قضیے میں میری طرف رجوع ہوتے ہیں اور میں ایسی عمدہ رائے دیتا ہوں کہ جو کسی کو نہیں سوجھتی گویا تنازع اور جھگڑے کی کھجلی میرے پاس آکر اور مجھ سے رائے لے کر رفع کرتے ہیں اور تباہی اور بربادی کے ڈر میں میری پناہ لیتے ہیں میں ان کی باڑ ہوجاتا ہوں حوادث اور بلاؤں کی آندھیوں سے ان کو بچاتا ہوں، اپنی اتنی تعریف کے بعد اس نے دو خلیفہ مقرر کرنے کی تجویز پیش کی جوسراسر غلط تھی اور اسلام کے لیے سخت نقصان دہ اسے تائید الٰہی سمجھنا چاہئے کہ فوراً ہی سب حاضرین انصار اور مہاجرین نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر اتفاق رائے کرکے مسلمانوں کو منتشر ہونے سے بچالیا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بیعت نہ کی اور خفا ہوکر ملک شام چلے گئے اور وہاں اچانک ان کا انتقال ہوگیا۔ انتخاب خلیفہ کے مسئلہ کو تجہیز و تکفین پر مقدم رکھا، اسی وقت سے عموماً یہ رواج ہوگیا کہ جب کوئی خلیفہ یا بادشاہ مرجاتا ہے تو پہلے اس کا جانشین منتخب کرکے بعد میں اس کی تجہیز و تکفین کا کام کیا جاتا ہے۔ حدیث میں ضمنی طور پر جعلی زانیہ کے رجم کا بھی ذکر ہے۔ باب سے یہی مطابقت ہے۔