كِتَابُ الأَذَانِ بَابٌ: أَهْلُ العِلْمِ وَالفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضِهِ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ» قَالَتْ عَائِشَةُ: قُلْتُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ البُكَاءِ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ: قُولِي لَهُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ البُكَاءِ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ، فَفَعَلَتْ حَفْصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَهْ إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ» فَقَالَتْ حَفْصَةُ لِعَائِشَةَ: مَا كُنْتُ لِأُصِيبَ مِنْكِ خَيْرًا
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
باب: امامت کرانے کا حقدار کون ہے؟
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ہشام بن عروہ سے خبر دی، انہوں نے اپنے باپ عروہ بن زبیر سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی للہ عنہا سے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو روتے روتے وہ ( قرآن مجید ) سنا نہ سکیں گے، اس لیے آپ عمر سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ آپ فرماتی تھیں کہ میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ وہ بھی کہیں کہ اگر ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو روتے روتے لوگوں کو ( قرآن ) نہ سنا سکیں گے۔ اس لیے عمر سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ حفصہ رضی اللہ عنہا ( ام المؤمنین اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ) نے بھی اسی طری کہا تو آپ نے فرمایا کہ خاموش رہو۔ تم صواحب یوسف کی طرح ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پس حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا۔ بھلا مجھ کو کہیں تم سے بھلائی پہنچ سکتی ہے؟
تشریح :
اس واقعہ سے متعلق احادیث میں “ صواحب یوسف ” کا لفظ آتا ہے۔ صواحب صاحبۃ کی جمع ہے، لیکن یہاں مراد صرف زلیخا سے ہے۔ اسی طرح حدیث میں “ انتم ” کی ضمیر جمع کے لیے استعمال ہوتی ہے، لیکن یہاں بھی صرف ایک ذات عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد ہے۔ یعنی زلیخا نے عورتوں کے اعتراض کے سلسلے کو بند کرنے کے لیے انہیں بظاہر دعوت دی اور اعزاز و اکرام کیا، لیکن مقصد صرف یوسف علیہ السلام کو دکھانا تھا کہ تم مجھے کیا ملامت کرتی ہو بات ہی کچھ ایسی ہے کہ میں مجبور ہوں۔ جس طرح اس موقع پر زلیخا نے اپنے دل کی بات چھپائے رکھی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی جن کی دلی تمنا یہی تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھائیں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید توثیق کے لیے ایک دوسرے عنوان سے بار بار پچھواتی تھیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے ابتداءمیں غالباً بات نہیں سمجھی ہوگی۔ اور بعد میںجب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زور دیا۔ تو وہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد سمجھ گئیں اور فرمایا کہ میں بھلا تم سے کبھی بھلائی کیوں دیکھنے لگی۔ ( تفہیم البخاری، ص:82پ:3 )
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ تھا کہ آخر تم سوکن ہو، تو کیسی ہی سہی تم نے ایسی صلاح دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ پر خفا کرادیا۔ اس حدیث سے اہل دانش سمجھ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قطعی طور پر یہ منظور نہ تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی امامت کرے اور باوجودیکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی پیاری بیوی نے تین بار معروضہ پیش کیا۔ مگر آپ نے ایک نہ سنی۔
پس اگر حدیث القرطاس میں بھی آپ کا منشاءیہی ہوتا کہ خواہ مخواہ کتاب لکھی جائے تو آپ ضرور لکھوا دیتے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جھگڑے کے بعد آپ کئی دن زندہ رہے مگر دوبارہ کتاب لکھوانے کا حکم نہیں فرمایا۔ ( وحیدی )
اس واقعہ سے متعلق احادیث میں “ صواحب یوسف ” کا لفظ آتا ہے۔ صواحب صاحبۃ کی جمع ہے، لیکن یہاں مراد صرف زلیخا سے ہے۔ اسی طرح حدیث میں “ انتم ” کی ضمیر جمع کے لیے استعمال ہوتی ہے، لیکن یہاں بھی صرف ایک ذات عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد ہے۔ یعنی زلیخا نے عورتوں کے اعتراض کے سلسلے کو بند کرنے کے لیے انہیں بظاہر دعوت دی اور اعزاز و اکرام کیا، لیکن مقصد صرف یوسف علیہ السلام کو دکھانا تھا کہ تم مجھے کیا ملامت کرتی ہو بات ہی کچھ ایسی ہے کہ میں مجبور ہوں۔ جس طرح اس موقع پر زلیخا نے اپنے دل کی بات چھپائے رکھی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی جن کی دلی تمنا یہی تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھائیں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید توثیق کے لیے ایک دوسرے عنوان سے بار بار پچھواتی تھیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے ابتداءمیں غالباً بات نہیں سمجھی ہوگی۔ اور بعد میںجب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زور دیا۔ تو وہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد سمجھ گئیں اور فرمایا کہ میں بھلا تم سے کبھی بھلائی کیوں دیکھنے لگی۔ ( تفہیم البخاری، ص:82پ:3 )
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ تھا کہ آخر تم سوکن ہو، تو کیسی ہی سہی تم نے ایسی صلاح دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ پر خفا کرادیا۔ اس حدیث سے اہل دانش سمجھ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قطعی طور پر یہ منظور نہ تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی امامت کرے اور باوجودیکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی پیاری بیوی نے تین بار معروضہ پیش کیا۔ مگر آپ نے ایک نہ سنی۔
پس اگر حدیث القرطاس میں بھی آپ کا منشاءیہی ہوتا کہ خواہ مخواہ کتاب لکھی جائے تو آپ ضرور لکھوا دیتے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جھگڑے کے بعد آپ کئی دن زندہ رہے مگر دوبارہ کتاب لکھوانے کا حکم نہیں فرمایا۔ ( وحیدی )