كِتَابُ الأَذَانِ بَابٌ: مَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ وَهُوَ لاَ يُرِيدُ إِلَّا أَنْ يُعَلِّمَهُمْ صَلاَةَ النَّبِيِّ ﷺ وَسُنَّتَهُ صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، قَالَ: جَاءَنَا مَالِكُ بْنُ الحُوَيْرِثِ - فِي مَسْجِدِنَا هَذَا - فَقَالَ: إِنِّي لَأُصَلِّي بِكُمْ وَمَا أُرِيدُ الصَّلاَةَ، أُصَلِّي كَيْفَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، فَقُلْتُ لِأَبِي قِلاَبَةَ: كَيْفَ كَانَ يُصَلِّي؟ قَالَ: مِثْلَ شَيْخِنَا هَذَا، قَالَ: وَكَانَ شَيْخًا، «يَجْلِسُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ، قَبْلَ أَنْ يَنْهَضَ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى»
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
باب: طریقہ نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مالک بن حویرث ( صحابی ) ایک دفعہ ہماری اس مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تم لوگوں کو نماز پڑھاؤں گا اور میری نیت نماز پڑھنے کی نہیں ہے، میرا مقصد صرف یہ ہے کہ تمہیں نماز کا وہ طریقہ سکھا دوں جس طریقہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے۔ میں نے ابوقلابہ سے پوچھا کہ انہوں نے کس طرح نماز پڑھی تھی؟ انہوں نے بتلایا کہ ہمارے شیخ ( عمر بن سلمہ ) کی طرح۔ شیخ جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو ذرا بیٹھ جاتے پھر کھڑے ہوتے۔
تشریح :
دوسری یا چوتھی رکعت کے لیے تھوڑی دیر بیٹھ کر اٹھنا یہ جلسہ استراحت کہلاتا ہے۔ اسی کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے۔ قال الحافظ فی الفتح و فیہ مشروعیۃ جلسۃ الاستراحۃ و اخذ بہا الشافعی و طائفۃ من اہل الحدیث یعنی فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ اس حدیث سے جلسہ استراحت کی مشروعیت ثابت ہوئی اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور اہل حدیث کی ایک جماعت کا اسی پر عمل ہے۔ مگر احناف نے جلسہ استراحت کا انکار کیا ہے، چنانچہ ایک جگہ لکھا ہوا ہے:
“ یہ جلسہ استراحت ہے اور حنفیہ کے یہاں بہتر ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔ ابتدا میں یہی طریقہ تھا، لیکن بعد میں اس پر عمل ترک ہو گیا تھا۔ ” ( تفہیم البخاری، ص: 81 )
آگے یہی حضرت اپنے اس خیال کی خود ہی تردید فرما رہے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے کہ “ یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ اس میں اختلاف صرف افضلیت کی حد تک ہے۔ ”
جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ اسے درجہ جواز میں مانتے ہیں۔ پھر یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ بعد میں اس پر عمل ترک ہو گیا تھا۔ ہم اس بحث کو طول دینا نہیں چاہتے۔ صرف مولانا عبدالحئی صاحب حنفی لکھنؤی کا تبصرہ نقل کردیتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں:
اعلم ان اکثر اصحابنا الحنفیۃ و کثیرا من المشائخ الصوفیۃ قد ذکروا فی کیفیۃ صلوٰہ التسبیح الکیفیۃ التی حکاہا الترمذی و الحاکم عن عبداللہ بن المبارک الخالیۃ عن جلسۃ الاستراحۃ و الشافعیۃ و المحدثون اکثرہم اختاروا الکیفیۃ المشتملۃ علی جلسۃ الاستراحۃ و قد علم ہما اسلفنا ان الاصح ثبوتا ہو ہذہ الکیفیۃ فلیاخذ بہا من یصلیہا حنفیا کان او شافعیا ( تحفۃ الاحوذی، ص:237 بحوالہ کتاب الاثار المرفوعۃ ) یعنی جان لو کہ ہمارے اکثر علمائے احناف اور مشائخ صوفیہ نے صلوٰۃ التسبیح کا ذکر کیا ہے۔ جسے ترمذی اور حاکم نے حضرت عبداللہ بن مبارک سے نقل کیا ہے مگر اس میں جلسہ استراحت کا ذکر نہیں ہے۔ جب کہ شافعیہ اور اکثر محدثین نے جلسہ استراحت کو مختار قرار دیا ہے اور ہمارے بیان گذشتہ سے ظاہر ہے کہ ثبوت کے لحاظ سے صحیح یہی ہے کہ جلسہ استراحت کرنا بہتر ہے پس کوئی حنفی ہو یا شافعی اسے چاہئے کہ جب بھی وہ صلوٰۃ التسبیح پڑھے ضرور جلسہ استراحت کرے۔
محدث کبیر علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ قد اعتذر الحنفیۃ وغیرہم من لم یقل بجلسۃ الاستراحۃ عن العمل بحدیث مالک بن الحویرث المذکور فی الباب باعذار کلہا باردۃ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی جو حضرات جلسہ استراحت کے قائل نہیں احناف وغیرہ انہوں نے حدیث مالک بن حویریث رضی اللہ عنہ جو یہاں ترمذی میں مذکور ہوئی ہے ( اور بخاری شریف میں بھی قارئین کے سامنے ہے ) پر عمل کرنے سے کئی ایک عذر پیش کئے ہیں جن میں کوئی جان نہیں ہے اور جن کو عذر بے جاہی کہنا چاہئے۔ ( مزید تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
دوسری یا چوتھی رکعت کے لیے تھوڑی دیر بیٹھ کر اٹھنا یہ جلسہ استراحت کہلاتا ہے۔ اسی کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے۔ قال الحافظ فی الفتح و فیہ مشروعیۃ جلسۃ الاستراحۃ و اخذ بہا الشافعی و طائفۃ من اہل الحدیث یعنی فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ اس حدیث سے جلسہ استراحت کی مشروعیت ثابت ہوئی اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور اہل حدیث کی ایک جماعت کا اسی پر عمل ہے۔ مگر احناف نے جلسہ استراحت کا انکار کیا ہے، چنانچہ ایک جگہ لکھا ہوا ہے:
“ یہ جلسہ استراحت ہے اور حنفیہ کے یہاں بہتر ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔ ابتدا میں یہی طریقہ تھا، لیکن بعد میں اس پر عمل ترک ہو گیا تھا۔ ” ( تفہیم البخاری، ص: 81 )
آگے یہی حضرت اپنے اس خیال کی خود ہی تردید فرما رہے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے کہ “ یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ اس میں اختلاف صرف افضلیت کی حد تک ہے۔ ”
جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ اسے درجہ جواز میں مانتے ہیں۔ پھر یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ بعد میں اس پر عمل ترک ہو گیا تھا۔ ہم اس بحث کو طول دینا نہیں چاہتے۔ صرف مولانا عبدالحئی صاحب حنفی لکھنؤی کا تبصرہ نقل کردیتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں:
اعلم ان اکثر اصحابنا الحنفیۃ و کثیرا من المشائخ الصوفیۃ قد ذکروا فی کیفیۃ صلوٰہ التسبیح الکیفیۃ التی حکاہا الترمذی و الحاکم عن عبداللہ بن المبارک الخالیۃ عن جلسۃ الاستراحۃ و الشافعیۃ و المحدثون اکثرہم اختاروا الکیفیۃ المشتملۃ علی جلسۃ الاستراحۃ و قد علم ہما اسلفنا ان الاصح ثبوتا ہو ہذہ الکیفیۃ فلیاخذ بہا من یصلیہا حنفیا کان او شافعیا ( تحفۃ الاحوذی، ص:237 بحوالہ کتاب الاثار المرفوعۃ ) یعنی جان لو کہ ہمارے اکثر علمائے احناف اور مشائخ صوفیہ نے صلوٰۃ التسبیح کا ذکر کیا ہے۔ جسے ترمذی اور حاکم نے حضرت عبداللہ بن مبارک سے نقل کیا ہے مگر اس میں جلسہ استراحت کا ذکر نہیں ہے۔ جب کہ شافعیہ اور اکثر محدثین نے جلسہ استراحت کو مختار قرار دیا ہے اور ہمارے بیان گذشتہ سے ظاہر ہے کہ ثبوت کے لحاظ سے صحیح یہی ہے کہ جلسہ استراحت کرنا بہتر ہے پس کوئی حنفی ہو یا شافعی اسے چاہئے کہ جب بھی وہ صلوٰۃ التسبیح پڑھے ضرور جلسہ استراحت کرے۔
محدث کبیر علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ قد اعتذر الحنفیۃ وغیرہم من لم یقل بجلسۃ الاستراحۃ عن العمل بحدیث مالک بن الحویرث المذکور فی الباب باعذار کلہا باردۃ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی جو حضرات جلسہ استراحت کے قائل نہیں احناف وغیرہ انہوں نے حدیث مالک بن حویریث رضی اللہ عنہ جو یہاں ترمذی میں مذکور ہوئی ہے ( اور بخاری شریف میں بھی قارئین کے سامنے ہے ) پر عمل کرنے سے کئی ایک عذر پیش کئے ہیں جن میں کوئی جان نہیں ہے اور جن کو عذر بے جاہی کہنا چاہئے۔ ( مزید تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی کا مطالعہ کرنا چاہئے۔