كِتَابُ الفَرَائِضِ بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو قَيْسٍ سَمِعْتُ هُزَيْلَ بْنَ شُرَحْبِيلَ قَالَ سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنْ بِنْتٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ فَقَالَ لِلْبِنْتِ النِّصْفُ وَلِلْأُخْتِ النِّصْفُ وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنِي فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى فَقَالَ لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُهْتَدِينَ أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْابْنَةِ النِّصْفُ وَلِابْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ لَا تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ
کتاب: فرائض یعنی ترکہ کے حصول کے بیان میں
باب : اگر کسی کے لڑکا نہ ہو تو پوتے کی میراث کا بیان؟
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم سے ابوقیس عبدالرحمن بن ثروان نے، انہوں نے ہزیل بن شرحبیل سے سنا، بیان کیا کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے بیٹی، پوتی اور بہن کی میراث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا اور بہن کو آدھا ملے گااور تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے یہاں جا، شاید وہ بھی یہی بتائیں گے۔ پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیااور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی بات بھی پہنچائی گئی تو انہوں نے کہا کہ میں اگر ایسا فتویٰ دوں تو گمراہ ہوچکا اور ٹھیک راستے سے بھٹک گیا۔ میں تو اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا، پوتھی کو چھٹا حصہ ملے گا، اس طرح دو تہائی پوری ہوجائے گی اور پھر جو باقی بچے گا وہ بہن کو ملے گا۔ پھر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی گفتگو ان تک پہنچائی تو انہوں نے کہا کہ جب تک یہ عالم تم میں موجود ہیں مجھ سے مسائل نہ پوچھا کرو۔
تشریح :
حضرت سلمان فارسی بھی اس مسئلہ میں یہی حکم دیتے تھے جو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے قول سے رجوع کرلیا تھا۔ یہاں سے مقلدین جامدین کو سبق لینا چاہئے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جب حدیث بیان کی تو حضرت ابوموسیٰ نے اپنے قیاس اور رائے کو چھوڑ دیا بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساپنے اپنے کو ناقابل فتویٰ قرار دیا۔ ایمانداری اور انصاف پروری اسی کا نام ۔ دعوا کل قول عند قول محمد ( صلی اﷲ علیہ وسلم )
حضرت سلمان فارسی بھی اس مسئلہ میں یہی حکم دیتے تھے جو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے قول سے رجوع کرلیا تھا۔ یہاں سے مقلدین جامدین کو سبق لینا چاہئے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جب حدیث بیان کی تو حضرت ابوموسیٰ نے اپنے قیاس اور رائے کو چھوڑ دیا بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساپنے اپنے کو ناقابل فتویٰ قرار دیا۔ ایمانداری اور انصاف پروری اسی کا نام ۔ دعوا کل قول عند قول محمد ( صلی اﷲ علیہ وسلم )