‌صحيح البخاري - حدیث 6728

كِتَابُ الفَرَائِضِ بَابُ مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الحَدَثَانِ، وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، ذَكَرَ لِي مِنْ حَدِيثِهِ ذَلِكَ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَيْهِ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: انْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى عُمَرَ، فَأَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَأُ فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَالزُّبَيْرِ، وَسَعْدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ، ثُمَّ قَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا، قَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ» يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ، فَقَالَ الرَّهْطُ: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، فَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ، فَقَالَ: هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ؟ قَالاَ: قَدْ قَالَ ذَلِكَ. قَالَ عُمَرُ: فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الأَمْرِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ، فَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ} [الحشر: 7]- إِلَى قَوْلِهِ - {قَدِيرٌ} [الحشر: 6] فَكَانَتْ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ وَلاَ اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ، لَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا المَالُ، فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ مِنْ هَذَا المَالِ نَفَقَةَ سَنَتِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَعَمِلَ بِذَاكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيَاتَهُ، أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ قَالَ [ص:150] لِعَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟ قَالاَ: نَعَمْ، فَتَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَبَضَهَا فَعَمِلَ بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ: أَنَا وَلِيُّ وَلِيِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ أَعْمَلُ فِيهَا مَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ جِئْتُمَانِي وَكَلِمَتُكُمَا وَاحِدَةٌ وَأَمْرُكُمَا جَمِيعٌ، جِئْتَنِي تَسْأَلُنِي نَصِيبَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ. وَأَتَانِي هَذَا يَسْأَلُنِي نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ، فَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ؟ فَوَاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ، لاَ أَقْضِي فِيهَا قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا فَادْفَعَاهَا إِلَيَّ فَأَنَا أَكْفِيكُمَاهَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 6728

کتاب: فرائض یعنی ترکہ کے حصول کے بیان میں باب : جس نے اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا، اس کے گناہ کا بیان ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے مالک بن اوس بن حدثان نے خبردی کہ محمد بن جبیر بن مطعم نے مجھ سے مالک بن اوس کی اس حدیث کا ایک حصہ ذکر کیا تھا۔ پھر میں خود مالک بن اوس کے پاس گیا اور ان سے یہ حدیث پوچھی تو انہوں نے بیان کیا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا پھر ان کے حاجب یرفاءنے جاکر ان سے کہا کہ عثمان، عبدالرحمن بن زبیر اور سعد آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اچھا آنے دو۔ چنانچہ انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی۔ پھر کہا، کیا آپ علی و عباس رضی اللہ عنہما کو بھی آنے کی اجازت دیں گے؟ کہا کہ ہاں آنے دو۔ چنانچہ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیرالمؤمنین میرے اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان فیصلہ کردیجے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان وزمین قائم ہیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہمچھوڑیں وہ سب راہ اللہ صدقہ ہے؟ اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی خود اپنی ہی ذات تھی۔ جملہ حاضرین بولے کہ ہاں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ پھر حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایاتھا؟ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر میں اب آپ لوگوں سے اس معاملہ میں گفتگو کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس فے کے معاملہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ حصے مخصوص کردےئے جو آپ کے سوا کسی اور کو نہیں ملتا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ” ما افاءاﷲ علی رسولہ“ ارشاد قدیر ، تک۔ یہ تو خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ تھا۔ اللہ کی قسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تمہارے لئے ہی مخصوص کیا تھا اور تمہارے سوا کسی کو اس پر ترجیح نہیں دی تھی، تمہیں کو اس میں سے دیتے تھے اور تقسیم کرتے تھے۔ آخر اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنے گھروالوں کے لئے سال بھر کا خرچہ لیتے تھے، اس کے بعد جو کچھ باقی بچتا اسے ان مصارف میں خرچ کرتے جو اللہ کے مقرر کردہ ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرز عمل آپ کی زندگی بھر رہا۔ میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں، کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا، میں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ لوگوں کو یہ معلوم ہے؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور ابوبکرص نے کہا کہ اب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہوں چنانچہ انہوں نے اس پر قبضہ میں رکھ کر اس طرز عمل کو جاری رکھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی وفات دی تو میں نے کہا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب کا نائب ہوں۔ میں بھی دو سال سے اس پر قابض ہوں اور اس مال میں وہی کرتا ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہو۔ آپ دونوں کی بات ایک ہے اور معاملہ بھی ایک ہی ہے۔ آپ( عباس رضی اللہ عنہ ) میرے پاس اپنے بھتیجے کی میراث سے اپنا حصہ لینے آ:ے ہو اور آپ( علی رضی اللہ عنہ ) اپنی بیوی کا حصہ لینے آئے ہو جو ان کے والد کی طرف سے انہیں ملتا۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ دونوں چاہتے ہیں تو میں اسے آپ کو دے سکتا ہوں لکن آپ لوگ اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں تو اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، میں اس مال میں اس کے سوا اورکوی فیصلہ نہیں کرسکتا، قیامت تک، اگر آپ اس کے مطابق عمل نہیں کرسکتے تو وہ جائیداد مجھے واپس کردیجئے میں اس کا بھی بندوبست کرلوں گا۔
تشریح : ہوا یہ تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سب جائیداد جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں حضرت فاطمہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کو نہیں دی تھی۔ حضرت عباس اورحضرت علی رضی اللہ رنہما کے حوالہ کردی تھی اس شرط پر کہ وہ اس جائیداد کو ان ہی کاموںمیں خرچ کرتے رہیں گے جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے یعنی یہ سپردگی محض انتظام کے طور پر تھی نہ بطور تملک اور تقسیم کے۔ حدیث ہٰذا میں اسی کی بابت قضیہ مذکور ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حدیث لانرث ولانورث، ماترکنا صدقۃ خود رسو کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی تھی۔ اسی لئے وہ عام قانون فرائض کے مطابق ترکہ کی طلب گار ہوئیں۔ مگر فرمان نبوی برحق تھا۔ اسی لئے ان کو یہ ترکہ تقسیم نہیں کیاگیا جس پر وہ خفا ہوگئی تھیں۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ بعد میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی للہ عنہا کو راضی کرلہا تھا۔ ( دیکھو شرح وحیدی۔ پارہ27 رضی اللہ عنہ 72 ) ( حقیقت یہ ہے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ناراض ہی نہیں ہوئی تھیں بلکہ انہیں جب حدیث سنائی گئی تو وہ خاموشی کے ساتھ واپس چلی گئیں اور وفات تک ابوبکر سے اس وراثت کے مسئلہ میں کوئی گفتگو نہیں کی۔ فما تکلمت بعد۔ عبدالرشید تونسوی ) ہوا یہ تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سب جائیداد جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں حضرت فاطمہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کو نہیں دی تھی۔ حضرت عباس اورحضرت علی رضی اللہ رنہما کے حوالہ کردی تھی اس شرط پر کہ وہ اس جائیداد کو ان ہی کاموںمیں خرچ کرتے رہیں گے جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے یعنی یہ سپردگی محض انتظام کے طور پر تھی نہ بطور تملک اور تقسیم کے۔ حدیث ہٰذا میں اسی کی بابت قضیہ مذکور ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حدیث لانرث ولانورث، ماترکنا صدقۃ خود رسو کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی تھی۔ اسی لئے وہ عام قانون فرائض کے مطابق ترکہ کی طلب گار ہوئیں۔ مگر فرمان نبوی برحق تھا۔ اسی لئے ان کو یہ ترکہ تقسیم نہیں کیاگیا جس پر وہ خفا ہوگئی تھیں۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ بعد میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی للہ عنہا کو راضی کرلہا تھا۔ ( دیکھو شرح وحیدی۔ پارہ27 رضی اللہ عنہ 72 ) ( حقیقت یہ ہے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ناراض ہی نہیں ہوئی تھیں بلکہ انہیں جب حدیث سنائی گئی تو وہ خاموشی کے ساتھ واپس چلی گئیں اور وفات تک ابوبکر سے اس وراثت کے مسئلہ میں کوئی گفتگو نہیں کی۔ فما تکلمت بعد۔ عبدالرشید تونسوی )