كِتَابُ كَفَّارَاتِ الأَيْمَانِ بَابُ صَاعِ المَدِينَةِ، وَمُدِّ النَّبِيِّ ﷺوَبَرَكَتِهِ، وَمَا تَوَارَثَ أَهْلُ المَدِينَةِ مِنْ ذَلِكَ قَرْنًا بَعْدَ قَرْنٍ صحيح حَدَّثَنَا مُنْذِرُ بْنُ الْوَلِيدِ الْجَارُودِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ وَهْوَ سَلْمٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ قَالَ كَانَ ابْنُ عُمَرَ يُعْطِي زَكَاةَ رَمَضَانَ بِمُدِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُدِّ الْأَوَّلِ وَفِي كَفَّارَةِ الْيَمِينِ بِمُدِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو قُتَيْبَةَ قَالَ لَنَا مَالِكٌ مُدُّنَا أَعْظَمُ مِنْ مُدِّكُمْ وَلَا نَرَى الْفَضْلَ إِلَّا فِي مُدِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ لِي مَالِكٌ لَوْ جَاءَكُمْ أَمِيرٌ فَضَرَبَ مُدًّا أَصْغَرَ مِنْ مُدِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَيِّ شَيْءٍ كُنْتُمْ تُعْطُونَ قُلْتُ كُنَّا نُعْطِي بِمُدِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَفَلَا تَرَى أَنَّ الْأَمْرَ إِنَّمَا يَعُودُ إِلَى مُدِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کتاب: قسموں کے کفارہ کے بیان میں
باب : مدینہ منورہ کا صاع( ایک پیمانہ) اورنبی کریم ﷺکا مد( ایک پیمانہ) اور اس میں برکت، اور بعدمیں بھی اہل مدینہ کو نسلاً بعد نسل جو صاع اور مد ورثہ میں ملا اس کا بیان
ہم سے منذر بن الولید الجارودی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوقتیبہ سلم شعیری نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما رمضان کا فطرانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پہلے مد کے وزن سے دیتے تھے اور قسم کا کفارہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے ہی دیتے تھے۔ ابوقتیبہ نے اسی سند سے بیان کیا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا کہ ہمارا مد تمہارے مد سے بڑا ہے اور ہمارے نزدیک ترجیح صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے مد کو ہے۔ اور مجھ سے امام مالک نے بیان کیا کہ اگر ایسا کوئی حاکم آیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے چھوٹا مد مقرر کردے تو تم کس حساب سے ( صدقہ فطر وغیرہ) نکالو گے؟ میں نے عرض کیا کہ ایسی صورت میں ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے مد کے حساب سے فطرہ نکالا کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ معاملہ ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے مد کی طرف لوٹتا ہے۔
تشریح :
اسی لیے کوفی مد اور صاع ناقابل اعتبار ہیں۔
اسی لیے کوفی مد اور صاع ناقابل اعتبار ہیں۔